جموں//
جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) آر آر سوائن نے پیر کے روز وادی کی علاقائی سیاست کو کشمیری سول سوسائٹی میں پاکستان کی ’کامیاب‘ دراندازی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ ’نام نہاد مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں’’ نے اپنے انتخابی امکانات کو آگے بڑھانے کے لئے دہشت گرد نیٹ ورکس اور بعض اوقات براہ راست رہنماؤں کو فروغ دیا‘‘۔
سوائن نے یہاں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ میں ایک تقریب کے موقع پر نامہ نگاروں سے کہا کہ ہم نے اپنے درمیان تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کی کہ نئے طریقے اور وہ کیا طریقہ کار اپنا رہے ہیں۔
ڈی جی پی نے کہا کہ پاکستان نے وادی میں نام نہاد مین اسٹریم یا علاقائی سیاست کی بدولت سول سوسائٹی کے تمام اہم پہلوؤں میں کامیابی سے دراندازی کی۔ان کاکہنا تھا’’ اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ بہت سے لوگ خرگوش کے ساتھ دوڑنے اور شکاری کے ساتھ شکار کرنے کا فن رکھتے تھے ، جس نے عام آدمی اور سیکورٹی اہلکاروں دونوں کو حیران ، خوفزدہ اور الجھن میں ڈال دیا تھا‘‘۔
اپنے حملے کو جاری رکھتے ہوئے سوائن نے الزام عائد کیا کہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے دہشت گردوں کے گھروں کا دورہ کرنا اور عوامی سطح پر ان کے لئے ہمدردی کا اظہار کرنا’معمول‘بن چکا تھا ۔
پولیس سربراہ نے کہا کہ اگرچہ دہشت گردی میں نئی بھرتیوں کے خاتمے کی اجازت دی گئی اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی لیکن جن لوگوں نے بھرتیوں میں سہولت فراہم کی اور مالی اعانت کا انتظام کیا ان کے خلاف کبھی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ ایس پی رینک کے افسران کو گرفتار کیا گیا اور دہشت گردوں کے ساتھ جیلوں میں ڈال دیا گیا، ایسے جرائم کے لئے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے تھے۔
سوائن نے کہا کہ ۲۰۱۴ میں دو لڑکیوں کے ڈوبنے کے واقعے کو دہشت گردوں نے ہائی جیک کرنے کی اجازت دی تھی جنہوں نے وادی کو کئی ہفتوں یرغمال بنایا‘ ہڑتالوں اور فسادات برپا کئے ۔
ڈی جی پی نے ۲۰۱۴ میں ترال میں ایک نالے میں ڈوب کر ہلاک ہونے والی دو لڑکیوں کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی بی آئی کے ذریعہ بہت تفصیلی جانچ اور ایمس فارنسک کے ذریعہ تصدیق سے ثابت ہوا کہ یہ ایک حادثہ تھا۔
سوائن نے کہا کہ ایک بین ریاستی سیکورٹی میٹنگ میں دہشت گردوں کے ذریعہ دراندازی کے نئے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے جو پنجاب کی سرحد سے ریاست میں داخل ہو رہے ہیں۔
ڈی جی ہی نے کہا’’کچھ دراندازی (پنجاب میں سرحد کے ذریعے) ہو رہی ہے اور یہ ایک عام بات ہے‘‘۔
پولیس سربراہ نے کہا’’ہم نے سرنگوں کے بارے میں بھی بات کی۔ اسے کیسے حل کیا جائے۔ ہم نے اس بارے میں بات چیت کی کہ دراندازی کے لئے سرنگوں کے استعمال کو زیادہ مؤثر طریقے سے کیسے حل کیا جائے‘‘۔
بی ایس ایف اور پولیس کے سینئر افسران جمعرات کو جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں ایک بین ریاستی سیکورٹی جائزہ اجلاس میں جمع ہوئے تھے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سرحد پار سے دراندازی کرنے والے دہشت گردوں نے فوج کے گشتی دستے پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافے پر سوائن نے کہا کہ کشمیر میں دہشت گردوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے ، لیکن اس سے صورتحال کی وضاحت نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ غیر ذمہ دار انہ عناصر ہیں۔ان کاکہنا تھا’’میں آپ کو اعداد و شمار بتاؤں گا۔ بہت سے دہشت گرد نہیں ہیں… صرف چند ہیں‘ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، صورتحال کو اکثر اعداد و شمار سے نہیں ماپا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ غیر ذمہ دار انہ عناصر‘‘۔
ڈی جی پی نے مزید کہا’’اس لیے ایک غیر ذمہ دار انہ عنصر‘ ایک بیرونی قتل کرنے والی مشین، یا ایک آدمی کو بلا امتیاز قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا، جس کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا تشدد کی سطح کو دہرانے یا اسے بڑھانے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے۔‘‘