بارہمولہ//
جموںکشمیر کی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ کی پولنگ قریب آنے کے بیچ ضلع بارہمولہ کے ایک گائوں میں خواتین کا ایک گروپ کشمیر کا روایتی لوک گیت ’ون ون‘گاتے ہوئے اور مٹھائیوں کی بارش کرتے ہوئے محبوس رکن قانون ساز انجینئر رشید کے فرزند ابرار رشید کا والہانہ استقبال کرتی ہیں۔
۲۳سالہ ابرار رشید اور ان کے برادر اصغر اسرار رشید جو کل تک گمنامی کی زندگی گذار رہے تھے آج گھریلو نام بن گئے ہیں اور بارہمولہ کے دیہات سے جب ان کی انتخابی مہم کا کارروان گذر جاتا ہے تو فضا فلک شگاف نعروں سے گونجتی ہے اور جہاں یہ کارروان رکتا ہے تو وہاں ابرار کو سننے کے لئے لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے ۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ انجینئر رشید کے حق میں ہمدردی کی بنیاد پر بلند ہونے والی اس لہر نے جموں کشمیر کی روایتی جماعتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
عوامی اتحاد پارٹی کے صدر عبدالرشید شیخ عرف انجینئر رشید بارہمولہ لوک سبھا سیٹ کے لئے تہاڑ جیل سے ہی میدان میں ہیں۔
لنگیٹ اسمبلی حلقے سے لگاتار دو بار رکن اسمبلی رہنے والے انجینئر رشید ملی ٹنسی فنڈنگ کیس کے سلسلے میں ۲۰۱۹سے بند ہیں۔بارہمولہ لوک سبھا سیٹ کے لئے اب نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون، پی ڈی پی کے فیاض میر اور محبوس انجینئر رشید کے درمیان کانٹے کی ٹکر متوقع ہے ۔
انجینئر رشید کے حق میں عوامی لہر بلند ہونے سے قبل اس سیٹ پر عمر عبداللہ اور سجاد لون کے درمیان ہی مقابلہ دیکھا جاتا تھا لیکن اب یہ جنگ ایک دلچسپ مرحلے میں داخل ہوئی ہے ۔
انجینئر رشید کا لوگوں کی ہمدردی پر انحصار ہے جبکہ عمر عبداللہ بی جے پی کے دفعہ۳۷۰اور سجاد لون کو بی جے پی کی بی ٹیم کا کارڈ کھیل رہے ہیں اور سجاد لون اس سیٹ کے لئے عمر عبداللہ کو ’سیاح‘قرار دے رہے ہیں۔
پیپلز کانفرنس لوگوں کو یہ بتا کر بھی ووٹ مانگ رہی ہے کہ عمر عبداللہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس قیادت والی بی جے پی سرکار کا حصہ رہ چکے ہیں۔
دوسری طرف بارہمولہ لوک سبھا سیٹ کے لئے پیپلز کانفرنس کو اپنی پارٹی اور سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر بیگ کی بھی حمایت حاصل ہے ۔بارہمولہ لوک سبھا سیٹ چار اضلاع بارہمولہ، کپوار، بانڈی پورہ اور بڈگام پر مشتمل ہے ۔
حالیہ نئی حد بندی کے دوران بڈگام اور بیروہ اسمبلی نشستوں کو بھی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ میں شامل کیا گیا جس کے ساتھ یہ نشست اب۱۸؍اسمبلی نشستوں پر مشتمل ہے جس کے زائد از۱۷لاکھ رائے دہندگان ہیں۔
تاریخ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بارہمولہ میں باقی حلقوں مقابلے میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ دیکھا گیا ہے ۔
اس نشست پر گذشتہ چار لوک سبھا انتخابات۲۰۰۴‘۲۰۰۹‘۲۰۱۴؍اور۲۰۱۹میں پولنگ شرح بالترتین۵ء۳۵‘۸ء۴۱فیصد‘۱ء۳۹فیصد اور۹ء۳۸فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اس سیٹ پر سال۱۹۹۶میں سب سے زیادہ۷ء۴۷فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ رہا ہے ۔
بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر نیشنل کانفرنس کا زیادہ تر غلبہ رہا ہے اور گذشتہ لوک سبھا الیکشن میں اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے ہی امید وار اکبر لون نے بازی مار لی تھی۔سابق وزیر اعلیٰ عبداللہ جو اس سیٹ کے امید وار ہیں اس قلعے پر اپنا قبضہ بر قرار رکھنے کا دم بھرتے ہیں۔
ادھر بی جے پی نے کشمیر کی تین لوک سبھا سیٹوں میں کسی بھی سیٹ کے لئے اپنے امید وار کھڑے نہیں کئے ہیں تاہم وہ بعض پارٹیوں کو بالواسطہ سپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔اس لوک سبھا سیٹ کے لئے ۲۰مئی کو ہونے والی پولنگ کیلئے۲ہزارایک سو۳پولنگ مراکز قائم کئے گئے ہیں اور اس سیٹ کیلئے۲۲؍امید واد قسمت آزامائی کر رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین لوگوں میں الیکشن سے متعلق پائی جا رہی گہماگہمی کے پیش نظر اس نشست کے لئے بھی اچھے ووٹر ٹرن آؤٹ کی توقع کر رہے ہیں۔