نہیں صاحب بات بھوک اور پیاس کی ہی نہیں ہے… یا بھوکا اور پیاسا رہنے کی نہیں ہے اور…اور بالکل بھی نہیں ہے ۔بات صبر کی ہے … بھوکے اور پیاسا رہ کر یقینا ہم صبر کرتے ہیں… لیکن بات اتنی سی یا اتنی ہی نہیں ہے۔ ہوتی تو پھر بہت بڑے انعام کا وعدہ نہیں ہوتا … بالکل بھی نہیں ہو تا ۔ بات اصل میں صبر کی ہے …اس بات کو برداشت کرنے کی ہے جو بات آپ کو نا گوار لگے … جو بات آپ کو پسند نہیں آئے …آپ گاڑی میں چل رہے ہیں ‘آگے والی گاڑی کو آپ سائڈ نہیں دے رہی ہے… آپ کو ہارن بجا بجا کر اسے گالی نہیں دینی ہے…یہ صبر نہیں ہے … یہ روزہ نہیں ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بھوکا اور پیاسا رہنے اور… اور زیادہ سے زیادہ رمضان المبارک میں پانچوں وقت مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کو ہی روزہ سمجھ لیا ہے…اسے روزہ قرار دیا ہے… لیکن صاحب روزہ صرف یہ نہیں ہے… روزے کا مطلب اپنے اندر صبر پیدا کرنا ہے… اور ہاں قوت برداشت بھی ۔سال کے باقی دنوں میں توایک دوسرے سے لڑھتے اور جھگڑتے رہتے ہیں… چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں… یہ ہمارے دفتروں میں بھی ہو تا ہے ‘ گھروں میں بھی ہو تا ہے اور… اور دوسری جگہوں پر بھی … اگر رمضان المبارک میں بھی یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا … سائڈ نہ دینے پر ہارن بجا بجاکر آگے والے شخص کو گالیاں دیتے رہے تو … تو یہ تو شہر المساوات نہیں ہوا … ہم پھر ہمدردی اور صبر کے اس مہینے کا بنیادی مقصد ہی پورا نہیں کرتے ہیں ۔ اس بات کو آپ صرف دینی اعتبار سے نہ دیکھئے ‘ سماجی اعتبار سے بھی اسے دیکھ لیجئے کہ… کہ اگر ہم نے صبر کرنا سیکھ لیا ‘ ایک دوسرے کومعاف کرنا ہم نے اپنا شعار بنا لیا ‘ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگذر کرنے کا حوصلہ ہم میں پیدا ہو گیا …گھر میں بھی ہو گیا ‘دفتر میں بھی ہو گیا ‘ دوسری جگہوں پر بھی ہو گیا تو… تو ہماری زندگی کتنی پر سکون بن جائیگی …اور دنیا میں سکون … سکون قلب وہ واحد چیز ہے جو کسی بازار میں دستیاب نہیں ‘ جس کو آپ دولت سے خرید نہیں سکتے ہیں… لیکن … لیکن صاحب رمضان ہمیں ایک موقع دیتا ہے… اپنی زندگیوں کو پر سکون بنانے کا موقع…بس تھوڑا سا صبر کیجئے ‘ تھوڑا سا صبر کرنا سیکھ لیجئے …اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔ ہے نا؟