گمان بھی اور معتبر شہادتیں بھی دستیاب کہ جموںوکشمیر باالخصوص وادی کشمیر میں ایک عرصہ سے نقلی اور غیر موثر ادویات کا چلن اب اپنی جڑیں گہری اور مستحکم ہیں اور کوئی بااختیار اتھارٹی یا فیصلہ ساز سرکاری ادارہ اس دھندہ، جوا پنے آپ میں ہی شرمناک اور سنگین نوعیت کا مجرمانہ فعل ہے، کی بیخ کنی نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر چہ ادویات کے معیارات موثریت اور فعالیت کی جانچ پڑتال کرنے اور گہری نگاہ رکھنے کیلئے محکمہ صحت کی ایک اکائی کے طور ڈرگ اتھارٹی بھی اب عرصہ سے موجود ہے لیکن اس کی کارکردگی اس مخصوص معاملے کے حوالہ سے فی الوقت تک غیر موثر اور مایوس کن ہی تصور کی جارہی ہے۔
یہ سوال ایک مدت سے ہر زبان پر ہے اور قدم قدم پر کیا بھی جارہاہے کہ کشمیرکے طول وارض میں موجود ادویات کی چھوٹی بڑی ہزاروں دکانوں پر دستیاب ادویات کے استعمال کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ بیمار شفایاب نہیں ہو پارہے ہیں اور نہ صرف ہسپتالوں کو بھاری رش اور دبائو کا سامنا ہے بلکہ نجی کلنکوں ، پرائیوٹ نرسنگ ہیوم نما ہسپتالوں میں مختلف امراض میں مبتلا بیماروں کی لمبی لمبی قطار اندر قطاریں اپنی باری کے منتظر دکھائی دے رہی ہیں جبکہ اس سے برا حال پرائیوٹ ٹیسٹنگ لیبارٹریوں اور ڈائیگنوزک مراکز پر نظرآرہاہے۔ یہ سارا منظراس بات کا واضح ثبوت بھی ہے اور ایک طرح کا اعتراف بھی کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑھ ہے، یا ڈاکٹر امراض کی صحیح صحیح تشخص نہیں کر پارہے ہیں یا جو ادویات تجویز کی جارہی ہے وہ کلی یا جزوی طور سے غیر موثراور نقلی ہے اور اگر یہ دونوں نہیں یا ان دومیں سے ایک نہیں تو پھر کیا یہ قیاس کرنا دست ہے کہ کشمیر کی آب وہوا ہی ایسی ہے جو اس کی لگ بھگ ۹۰ فیصد آبادی کو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا کرتی جارہی ہے؟
اس سوال کا جواب کچھ سرکردہ ماہر معالج وقتاً وفوقتاًدیتے رہتے ہیں، انہیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جو ادویات کشمیرکے بازاروں میں دستیاب ہے ان کی اکثریت نقلی، غیر معیاری اور غیر موثرہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ان ادویات کو تجویز کرنے والے مخصوص ذہنیت اور طرزعمل کے ہاتھ ان ادویات کمپنیوں کے مقامی ایجنٹوں، سٹاکسٹوں اور دوسرے وابستہ لوگوں کے ساتھ مل کر مریضوں کو کھلا کر نہ صرف ناجائز دولت کے انبار اپنے لئے جمع کررہے ہیں بلکہ مریضوں کی صحت سلامتی اور بقاء کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کے مرتکب بھی ہورہے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کسی کو قانون کی زد میں نہیں لایاجارہاہے جواس مکروہ اور ہلاکت خیز دہندہ سے وابستہ لوگوں کیلئے حوصلہ کا باعث بن رہا ہے۔
کشمیر کے بازاروں میںنقلی ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے کئی طرح کے طریقے بروئے کار لائے جارہے ہیں، اس تعلق سے جو معلومات وقفے وقفے سے سامنے آتی رہتی ہیں اگر وہ سچ ہیں اور ان پر یقین کیاجائے تو پھر یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس کا روبار سے وابستہ کم سے کم پچاس فیصد لوگ جن میں مخصوص ذہنیت کے حامل کچھ ڈاکٹر، سٹاکسٹ، دکاندار اور ایجنٹ شامل ہیںمجرمانہ راستے پر گامزن ہوکر اپنے لئے جہنم میں سیٹ بُک کرچکے ہیں۔
یہ گمان بھی تھا کہ نقلی اور غیر معیاری ادویات کی کھپت صرف کشمیر تک محدود ہے اور مختلف دوا ساز کمپنیوں نے کشمیر کو اس حوالہ سے اپنی آماجگاہ بنانے میںکامیابی حاصل کرلی ہے لیکن اب کچھ عرصہ سے ملک کے مختلف حصوں سے بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ نقلی اور جعلی ادویات کے سکینڈل بے نقاب کئے جارہے ہیں۔چند ہفتے قبل مہاراشٹر کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارنے کے دوران انٹی بیوٹک کی ایک مخصوص ٹیکہ سپروفلاکسین ایک بڑی مقدار برآمد کرلی گئی جن کی مالیت کروڑوں میںبتائی گئی۔ یہ دھندہ پولیس کے مطابق گذشتہ کئی برسوں سے مہاراشٹر کے مختلف حصوں ناگپور تھانے وغیرہ علاقوں میں ہورہا تھا۔
نقلی ادویات سازی کے دھندہ میں ملوث افراد اوسط امراض کے حوالہ سے ہی نقلی ادویات سازی تک مخدود نہیں بلکہ اب کینسر جیسی موزی مرض کے لئے زندگی بخش ایک انجکشن کی نقل بھی تیار کرکے نہ صرف ہندوستان کے بازاروں میں پہنچانے میںکامیاب ہوئے ہیں بلکہ اس نقلی انجکشن کو چین اور امریکہ جیسے سپر طاقتوں کے حامل ملکوں کو بھی سپلائی کرنے میںکامیاب ہوئے ہیں۔
چھاپوں کا سلسلہ فی الوقت جاری ہے اور اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلا کہ یہ نقلی انجکشن بنانے والا ایک منظم گروہ ہے جو ایک سو روپے مالیت کی کچھ ادویات کو خالی وائیل میں بھرکر سپلائی کررہے ہیں۔ اس ایک انجکشن کی مالیت ایک لاکھ اور تین لاکھ روپے کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ گروہ سے وابستہ افراد نے انکشاف کیا ہے کہ انہوںنے اب تک ۷؍ہزار انجکشن تیار کرکے سپلائی کردیئے ہیں۔ چھاپے کے دوران چار کروڑ روپے مالیت کے یہ نقلی انجکشن ، خالی وائیل ، چھوٹی مشنری اور دوسرا سامان کچھ رہائشی فلیٹوں پر چھاپے کے دوران برآمد کئے جاچکے ہیں۔
مہارا شٹر اور دہلی کے حوالہ سے ان سنسنی خیزاور رونگٹے کھڑی کردینے والے معاملات ہوش اُڑا رہے ہیں۔ کشمیرکے تعلق سے یہ معاملات اس اعتبار سے بھی تشویش اور فکر مندی کا موجب ہیں کہ وہ کوئی مریض نہیں جس کا بُنیادی علاج انٹی بیوٹکس سے نہیں کیاجارہاہے جبکہ کشمیر میں ایک حالیہ سروے کے مطابق کینسر میںمبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہاہے ۔ کینسر کے مریضوں کو کیماوی تھرپی کے بعد مخصوص انجکشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ انجکشن بہت قیمتی ہیں۔ لیکن اب دہلی میں چھاپہ ماری کے بعد اس حوالہ سے بھی فکر مندی اور تشویشات میںشدت محسوس کی جارہی ہے۔
کیا یوٹی ایڈمنسٹریشن کی متعلقہ اتھارٹی اس جانب توجہ مبذول کرنے کیلئے کچھ وقت وقف کرے گی؟