سرینگر//
جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے سرحد پار گولہ باری کے معاوضے کے متعلق ایک کیس کے سلسلے میں مرکزی اور یونین ٹریٹری حکومت کو نوٹس جاری کئے ہیں۔
ضلع بارہمولہ کے اوڑی سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے قریب سکوکوٹ گائوں سے تعلق رکھنے والے فیاض احمد اعوان نامی ایک شخص نے اپنے وکیل نوید بختیار کے ذریعے ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سرحد پار گولہ باری سے متاثر ہونے والوں کی جائیداد کو پہلی ہی بنائی گئی پالیسی میں شامل کیا جائے جس سے فی الوقت اس کو خارج کر دیا گیا ہے ۔
لائن آف کنٹرول پر فروری سال۲۰۲۱میں طرفین کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل در آمد پر اتفاق سے قبل سکوکوٹ دہائیوں تک سر پار سے شدید گولہ باری کا شکار رہا جس کے نتیجے میں اکثر ہلاکتیں بھی ہوتی تھیں۔
درخواست گذار نے عدالت کو بتایا’’میں ایک پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۲۳؍اور۲۴فروری۲۰۱۸ کی درمیانی رات دشمن ملک سے ایل او سی پر بلا استعال بھاری فائرنگ کی گئی جس سے میری دو منزلہ مکان کو مکمل طور پر نقصان پہنچا اور مکان زمین بوس ہوگیا‘‘۔
انہوں نے اپنی عرضی میں کہا’’اس دن سے میں اپنے خاندان سمیت مقامی پنچایت ہائوس میں رہائش پذیر ہوں اور معاوضے اور کسی دوسرے رلیف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں‘‘۔
درخواست گذار کا کہنا ہے کہ سرکاری ایجنسی سے مجموعی نقصان کا تخمینہ ۱۳لاکھ ۲۰ہزار رویے لگایا گیا جبکہ ضلع مجسٹریٹ بارہمولہ نے ایک لاکھ روپیہ بطور معاوضہ منظور کیا تھا جس کو میں نے لینے سے انکار کیا۔
انہوں نے عرضی میں دہشت گردی/ فرقہ وارانہ/بائیں بازو کی انتہا پسندی اور سرحد پار فائرنگ اور باردوی سرنگوں/ آئی ای ڈی دھماکوں سے ہندوستانی علاقوں میں شہری متاثرین/ دہشت گردی کے متاثرین کے خاندانوں کی امداد کے لئے مختص مرکزی’اسکیم‘سے جائیداد کے نقصان کے معاوضے کو خارج کرنے کو چلینج کیا ہے ۔
عرضی گذار کے وکیل نے دلیل پیش کی کہ حکومت کی جانب سے متاثرین کی درجہ بندی، سرحد پار گولہ باری کے نتیجے میں جانیں گنوانے یا معذور ہونے والوں کے لئے معاوضے کو محدود کرنا پناہ کے بنیادی حق کو نظر انداز کرتا ہے ۔
وکیل کا اپنی دلیل میں کہنا ہے’’اس طرح کی درجہ بندی، جس میں سرحد پار شیلنگ کے شکار لوگوں کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو جبکہ دوسروں کو اس کے احاطے میں لایا گیا ہو، کی کوئی دلیل نہیں ہے ، دشمن ملک کی حرکت نے بنیادی حق کی خلاف ورزی کی ہے جو زندگی کا حق ہے جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے وقت وقت پر کہا ہے کہ زندگی کے حق سے مراد محض جانوروں جیسا وجود نہیں ہے بلکہ عزت کے ساتھ زندگی اور حق رہائش کو زندگی کے بنیادی حق کا ایک اہم حصہ قرار دیا گیا ہے ‘‘۔
ایک فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے درخواست گذار نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رہائش اور پناہ کے حق کو زندگی کے حق کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے ۔انہوں نے اپیل کی ہے کہ مدعاعلیہان کو۱۳لاکھ رویے بطور معاوضہ ادا کرنے کی ہدایت دی جائے ۔
عرضی کے بعد جسٹس ونود چٹرجی کول نے۷فروری کو حکام کو نوٹسز جاری کیں اور ان کو چار ہفتوں کے اندر جواب دینے کی ہدایت دی۔اس کیس کی اگلی سماعت کی تاریخ ۵مارچ۲۰۲۴مقرر کی گئی ہے ۔