سرینگر//
وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے منگل کے روز کہا کہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ چین ہندوستان کے پڑوسی ممالک پر اثر انداز ہوگا اور ہندوستان کو اس طرح کی ’مسابقتی سیاست‘ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، ممبئی میں طلبا کے ساتھ ایک انٹرایکٹو سیشن میں مالدیپ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے بارے میں پوچھے جانے پر جئے شنکرنے کہا کہ ہر پڑوس میں مسائل ہوتے ہیں، لیکن آخر کار’’پڑوسیوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
جئے شنکر نے کہا کہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے مسابقت ہے لیکن اسے ہندوستانی سفارتکاری کی ناکامی کہنا غلط ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا’’ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ چین بھی ایک ہمسایہ ملک ہے اور مسابقتی سیاست کے ایک حصے کے طور پر کئی طریقوں سے ان ممالک پر اثر انداز ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں چین سے ڈرنا چاہیے۔ میرے خیال میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ٹھیک ہے، عالمی سیاست ایک مسابقتی کھیل ہے۔ آپ اپنی پوری کوشش کریں، میں اپنی پوری کوشش کروں گا‘‘۔
جئے شنکر نے کہا کہ ایک بڑی معیشت ہونے کے ناطے چین وسائل بروئے کار لائے گا اور چیزوں کو اپنے راستے میں ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا’’ہم اس کے برعکس کیوں توقع کریں، لیکن اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ یہ شکایت کی جائے کہ چین ایسا کر رہا ہے‘‘۔
وزیر خارجہ کاکہنا تھا’’میں آج کہوں گا… ہمیں مسابقت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں مسابقت کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ میرے پاس مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے‘‘۔
اپنے ہمسایہ ممالک کی مدد کرنے کے ہندوستان کے ٹریک ریکارڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے سری لنکا کی مثال دی جسے نئی دہلی نے اس وقت مدد فراہم کی تھی جب جزیرہ ملک شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔
مالدیپ میں ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جئے شنکر نے سامعین پر زور دیا کہ وہ ہندوستانی سفارتکاری پر بھروسہ کریں۔
جئے شنکر نے کہا کہ ہر ملک کے پڑوس میں مسائل ہوتے ہیں۔’’ یہ کبھی بھی اتنا اچھا نہیں ہوتا جتنا وہ کہتے ہیں۔ یہ کبھی بھی اتنا برا نہیں ہوتا جتنا وہ کہتے ہیں۔ مسائل ہوں گے۔ ہمارا کام پیش گوئی کرنا، اندازہ لگانا، جواب دینا ہے۔ آخر کار ہمسایوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں‘‘۔
وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ سیاست میں سخت موقف اختیار کیا جاتا ہے اور سفارت کاری ہمیشہ ان تیز موقف کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔ان کاکہنا تھا’’آخر کار، پڑوسیوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ اور جغرافیہ بہت طاقتور قوتیں ہیں۔ اس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
رواں ماہ کے اوائل میں مالدیپ کے نومنتخب صدر محمد معظم نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ۱۵ مارچ تک اپنے ملک میں تعینات تمام بھارتی فوجی اہلکاروں کو واپس بلا لے۔
مالدیپ کی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ تحقیق اور سروے کرنے کے لیے تیار ایک چینی جہاز مالدیپ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد موئزو کا پہلا پورٹ آف کال بیجنگ تھا نہ کہ بھارت۔