سرینگر//
پنچایتوں اور بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے کے بعد حدبندی کا عمل شروع کرنے کیلئے جموں وکشمیر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ پہلے یہاں اسمبلی ختم کی گئی، پھر بلدیاتی ادارے ختم کئے گئے اور اب پنچایتیں بھی ختم کی گئیں اور پنچایتی انتخابات کے انعقاد میں حدبندی کو حائل قرار دیا جارہاہے ۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ پنچایتوں کی مدت۵سال کی تھی تو حکومت نے ۶ماہ پہلے ہی حدبندی کا عمل کیوں شروع نہیں کیا؟ان کاکہنا تھا’’کہنے کو تو بھارت کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے لیکن جموں وکشمیر میں اپنے ہی ہاتھوں اس ماں کا قتل کیا جارہاہے ۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ اگر پارلیمانی الیکشن کرانا ان کی مجبوری نہ ہوتی تو یہ لوگ یہاں یہ چناؤ بھی نہیں کراتے ‘‘۔
ان باتوں کا اظہار عمرعبداللہ نے آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا۔
سابق وزیر اعلیٰ کاکہناتھا’’ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسمبلی الیکشن کیلئے بھی سپریم کورٹ کو ہدایت دینی پڑی، الیکشن کمیشن کو شرم کے مارے سر جھکانا چاہئے ، اُن کو لوگوں سے معافی مانگی چاہئے کیونکہ جو فیصلہ اُن کو کرنا تھا وہ اب سپریم کورٹ کے ذریعے کیا جارہاہے ‘‘۔
عمرعبداللہ کا کہنا تھا کہ یہاں الیکشن کرانا الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت کا کام تھا لیکن بدقسمتی سے دونوں نے اپنے ہاتھ اوپر کردیئے ، آخر کار سپریم کورٹ کو آگے آکر ہدایت دینی پڑی کہ۳۰ستمبر۲۰۲۴سے پہلے یہاں الیکشن ہونے چاہئیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ابھی تک اپنے پارلیمانی اُمیدوروں کا انتخاب کرنے کیلئے کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے ۔ جب ہم اُمیدوروں کا فیصلہ کرنے بیٹھیں گے تو تمام زاویوں کو دیکھ کر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔
انڈیا الائنس میں سیٹ شیئرنگ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہاکہ فی الحال اس پر کوئی بات نہیں ہورہی ہے ، جب کوئی عمل شروع ہوتا تو ہم بات کریں گے۔انہوں نے کہا’’ لداخ کی سیٹ جوڑ کر ہماری محض۶سیٹیںہیں اور ان سیٹوں کی شیئرنگ میں ۱۰پندرہ منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا، میں چاہتا ہوں کہ جن بڑی ریاستوں میں زیادہ سیٹیں ہیں ، وہاں سیٹوں کی تقسیم کے عمل میں تیزی لائی جائے ‘‘۔
ریتلے پاور پروجیکٹ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہم یہ بجلی راجستھان نہیں جانے دیں گے ۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہاکہ اس پروجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی فروخت سیدھا سیدھا ہمارے ساتھ دھوکہ ہے ۔ ’’پروجیکٹ ہمارا، پانی ہمارا، بجلی ہماری، اگریہاں پر لوگوں کو ۲۴گھنٹے بجلی فراہم ہورہی ہوتی تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن ہمارے لو گ آج بجلی کیلئے ترس رہے ہیں اور آپ بجلی فروخت کرنے چلے ہیں‘‘۔انہوں نے کہاکہ حکمران سختی کرنے میں کوئی رحم نہیں کرتے ہیں، لیکن بجلی کی فراہمی کی بات آتی ہے تو اس وقت سرے سے ہی ناکام ہوتی ہے ۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ چاہئے ہمیں سپریم کورٹ کیوں ہی نہ جانا پڑے ، ریتلے کی بجلی راجستھان نہیں جائے گی۔ جب ہم اپنے پاور پروجیکٹ سے پاور حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بجلی فروخت کی جارہی ہے ، وہ بھی۴۰سال کیلئے ۔’’ میں یہ پہلی بار سن رہا ہوں کہ۴۰سال کیلئے معاہدہ کیا جارہا ہے ، نہیں تو۱۵بیس سال کا معاہدہ ہوتاہے ، یہ۴۰سال کی مدت کا تعین کیوں کیا گیا؟یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘