ہندوستان کے کسی خود ساختہ مذہبی راہنما نے ملک کے مسلما نوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ۲۰؍ جنوری اور ۲۶؍جنوری کے دوران اپنے گھروں سے باہر نہ آئیں اور نہ ریل گاڑیوں میں سفرکریں یہ حکمنامہ یا فتویٰ نما ہدایت نامہ ۲۲؍ جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب کے تناظرمیں مذکورہ مفتی نے جاری کیا ہے جبکہ اسی تناظرمیں حیدرآباد کے سیاسی لیڈر اسد الدین اویسی نے ملک کی مسلم نوجوان پود کو چوکس رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
دونوں بیانات میں اگر چہ کوئی خاص قدر مشترک نظرنہیںآرہی ہے لیکن دونوں لیڈروں کے بیانات کو ’غیر ضروری ‘ کسی حد تک اشتعال انگیز اور منافرت سے عبارت اور مسلم اقلیت میںدانستہ طو رسے خوف ودہشت میں مبتلا کرنے کی کوشش قراردی جارہی ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب کے تناظرمیں اس نوعیت کے بیانات کو سنجیدہ اور حساس حلقے غیر دانشمندانہ جبکہ دُشمنانہ ماحول کا ایک نیا باب رقم کرنے سے منسوب کیاجارہاہے۔
اس نوعیت کے بیانات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ اس کیلئے کسی قسم کا جوازپیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ ہندوئوں کا کہنا ہے کہ وہ پانچ سو سال سے اس دن کا انتظار کررہے ہیں اور اب ان کا یہ انتظار ختم ہونے جارہا ہے۔مسلمانوں کا موقف یہ رہاہے کہ بابری مسجد پانچ سو سال سے قائم تھی او رنماز کی ادائیگی ہورہی تھی۔ ان سے یہ حق چھین لیاگیا جبکہ عدالتی فیصلے کی آڑ میں اب اُن پر نفسیاتی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ مغلوں کی تعمیر بابری مسجد پانچ سو سال سے موجود تھی لیکن جب معاملہ دہائیوں سے اختلافات کی نذر ہوتا رہا تو ہندوستان کی مسلمان سیاسی، مذہبی، سماجی قیادتوں نے اس تعلق سے کیا کوئی مثبت ،ٹھوس اور حکمت سے عبارت دانشمندانہ کردارادا کیا؟ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا تو مسلم پرسنل بورڈ اور دوسرے کئی فریقین نے کیا اپنے حق اور بابری مسجد کے دفاع میں کوئی باوزن اور مضبوط دلائل پیش کئے۔ عدالت سے باہر تصفیہ کی کوشش کوبھی نہیں مانا، زمین کی تقسیم کے حوالہ سے پیش کردہ کئی تجاویز کو بھی کسی خاطر میںنہیں رکھا، یہی دعویٰ کرتے رہے کہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کیاجائے گااور جب عدالت کا فیصلہ سامنے آیا تو اس کو قبول کرنے سے کوئی ہاں تو کوئی نا کی کشتیوں میں سوار ہوتارہا ۔
مذہبی، سماجی اور سیاسی قیادت اپنی ۷۵؍سالہ ناکامیوں او رلن ترانیوں کا ملبہ اب مختلف طریقوں سے اپنی قوم پر گرانے کے احمقانہ راستوں پر مسلسل گامزن ہیں۔ قیادت کی لن ترانیوں ، سودا بازیوں اور حماقتوں کی ۷۵؍ سالہ تاریخ سے ذرہ بھر بھی سبق حاصل نہیں کی جارہی ہے۔ اس کے برعکس ۱۸؍ کروڑ مسلم آبادی کو مختلف اختراعی معاملات کی آڑمیں مسلسل طور سے خوف میں مبتلا رکھا جارہاہے۔ جبکہ تاریخی اور تلخ ترین سچ یہ بھی ہے کہ اس قیادت نے ملک کے مسلمانوں کو ماضی کی تاریخ کے حوالہ سے ذہنی طور سے قید میں رکھا ہے۔ خود اپنے سیاسی مقاصد اور حقیر مفادات اور ایجنڈا کے حصول اور تحفظ کے لئے ملکی مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور استعمال اور استحصال تو کیا جاتارہا لیکن خود مسلمان بھی یہ اندازہ کسی مرحلہ پر آج تک نہیں لگاپائے کہ ان کا استحصال کیاجارہاہے۔ یہ استحصال کبھی اویسی خاندان نے کیا، کبھی جامع مساجد کے اماموں او رخطیبوں نے کیا، کبھی مدنیوں اور دیو بندیوں نے میدان میں اُتر کر اپنا حصہ وصول کیا، کبھی عارف خان، انتولے، سلمان خورشید، پٹیل اور انہی قماش کے دوسرے لوگ مقامی سطح پر تو کبھی کوئی مافیا اور ڈان بن کر مسلمانوں کے جذبات اور خواہشات کا مجرمانہ کھلواڑ کرتے ان کا استحصال کرتا رہا۔
ہندوستانی مسلمان اس بات کا ہر گز یہ دعویٰ نہیںکرسکتے کہ وہ مٹھی بند اور شیرازہ بند ہیں۔ مسلکی نظریات اور مسلکی عقیدوں پر تقسیم سے قطع نظر اپنے حقوق او رمفادات اور نریٹو کے حوالہ سے بھی ان کی کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ رواداری، فرقہ وارانہ یکجہتی اور آپسی خیر سگالی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کریںکہ وہ ایک ایسے ملک میں رہائش پذیر ہیں جہاں ہندونظریات کی اکثریت ہے۔ اس اکثریت کے اپنے عقائد، رسم رواج ، نظریات اور طرززندگی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بن گیا اب یہ زمینی حقیقت ہے۔اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا جاہلیت ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی سماجی، سیاسی اور مذہبی قیادت اب دوسری کئی تاریخی مساجد کے حوالوں سے اکثریتی طبقے کی جانب سے سامنے آرہے دعوئوں کے حوالہ اور اُن کی طرف سے مضبوطی کے ساتھ عدالتوں میں پیش کرکے ریلیف حاصل کررہے ہیں لیکن مسلمانوں کی قیادت بحیثیت فریق اپنے حق اور دفاع میں ایک بھی باوزن، استدلال سے عبارت تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں کچھ بھی پیش نہیں کرپارہی ہے۔ ظاہر ہے جو قیادت بابری مسجد کا دفاع نہیں کرسکی وہ ان دوسری تاریخی مساجد کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کچھ بھی نہیں کرپائیگی؟
کوئی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کی کوشش کیوں نہیں کررہا ہے کہ برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، یوروپ کے دیگر ممالک وغیرہ میںبھی دُنیا بھر کے ممالک کے مسلمان شہری رہائش پذیر ہیں لیکن وہ ان ممالک کے قومی دھاروں سے الگ زندگی نہیں بسر کررہے ہیں بلکہ خود کو قومی دھارے سے وابستہ کرکے ان ممالک کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی زندگیوں کا ان مٹ حصہ بن چکے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی ممالک میں یہ مسلمان ان کے پارلیمان کی رکنیت تک حاصل کرچکے ہیں۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کا مسلمان بلکہ ان کی اکثریت خود ملک کے قومی دھارے سے ۷۵؍ سال گذرنے کے باوجود بھی وابستہ نہیں کرسکی ہے کیوں وہ خود کو ابھی بھی ماضی اور تاریخ سے پیوست تصورکررہی ہے اور یہ توقع کررہی ہے کہ ان کے لئے کوئی نیاخضر آئے گا؟ وہ کیوں روایتی اور ابن الوقت سیاستدانوں، استحصال پسند خودساختہ مفتیوں اور تھوڑی سی بھی ذمہ دارانہ سوچ نہ رکھنے والے نکڑ اور گلیوں کے اماموں اور خطیبوں کو اپنا استحصال کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ حکیمانہ طرزعمل، دانشمندانہ اپروچ اور زمینی حقائق کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنی ماضی قریب کی غلطیوں کو حاشیہ پر رکھتے ہوئے حال او رمستقبل کو ملحوظ نظر رکھ کر قومی دھارے سے خود کو وابستہ کریں اور زندگی کے ہر شعبے کے حوالہ سے اپنا حق تلاش بھی کریں اور طلب بھی کریں۔