نئی دہلی//
لوک سبھا نے بدھ کو جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل اور جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل کو منظور کر لیا۔
لوک سبھا نے جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل ۲۰۲۳منظور کیا، جس میں کشمیری تارکین وطن کے لیے دو نشستیں اور جموں و کشمیر اسمبلی میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی اور شیڈول کے لیے سیٹیں درج فہرست ذات و قبائل اور دیگر کے لئے سیٹیں ریزرو کرنے کا انتظام ہے ۔
اس کے علاوہ جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل۲۰۲۳سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے اراکین کو ملازمتوں اور پیشہ ورانہ اداروں میں داخلوں میں ریزرویشن فراہم کرتا ہے ۔
ایوان میں تقریباً چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کانگریس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے کبھی بھی پسماندہ طبقوں کا کوئی بھلا نہیں کیا اور نہ ہی اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہے جس نے پسماندہ اور محروم طبقات کے لوگوں کو جو ذلیل و خوار، ناانصافی کا شکار ہوئے ، پسماندہ اور محروم طبقوں کو سماج کے مرکزی دھارے میں جگہ دی ہے اور انہیں بااختیار بنانے کی طرف قدم اٹھایا ہے ۔
شاہ نے کہا کہ جموں کشمیر کے کمزور اور محروم طبقات کو دیگر پسماندہ طبقات کے تحت لایا گیا ہے اور ریزرویشن فراہم کیا گیا ہے ۔ اس کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات کے عزت و احترام سے ہے اور وزیر اعظم مودی نے ان کی انگلی پکڑ کر انہیں آگے لے جانے کا کام کیا ہے ۔ مودی نے انہیں مدد سے زیادہ عزت دی ہے جو زیادہ اہم ہے ۔
جموں و کشمیر کی تنظیم نو (ترمیمی) بل۲۰۲۳لیفٹیننٹ گورنر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اسمبلی میں کشمیری مہاجر کمیونٹی سے زیادہ سے زیادہ دو ممبران (جن میں سے کم از کم ایک خاتون ہونی چاہیے ) اور ایک ممبر پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے بے گھر افراد کی نمائندگی کرے ۔
اسی طرح جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل۲۰۲۳میں درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے افراد کو ملازمتوں اور پیشہ ورانہ اداروں میں داخلہ میں ریزرویشن فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔
اس موقع پر وزیر داخلہ نے کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹانے پر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور پوچھا کہ جب پنڈتوں نے جموں و کشمیر سے ہجرت کی تو کسی نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی۔سینکڑوں ہیکٹر اراضی کے مالکان کو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں اور خستہ حال کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کی کروڑوں کی جائیداد ضبط کر لی گئی لیکن نیشنل کانفرنس کے لیڈروں نے خاموشی اختیار کی۔
شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کے آنسو پونچھنے کا کام کیا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل۳۷۰؍اور۳۵؍اے سے متعلق سوالات اور تبصروں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرٹیکل۳۷۰کو ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے ۔ پتھراؤ رک گیا ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں ۷۰فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد میں بھی تقریباً ۶۰فیصد کمی آئی ہے ۔
وزیر داخلہ نے کہا’’ سرینگر میں آج سو سے زائد فلموں کی شوٹنگ جاری ہے ۔ سینما ہال۳۰سال بعد کھل گئے ۔ لاکھوں گھروں میں پینے کا پانی دستیاب ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ بچوں کی اموات کی شرح میں کمی آئی ہے ۔ کشمیری ڈوگری، انگریزی، ہندی اور پنجابی کو سرکاری زبانوں کا درجہ مل چکا ہے ۔ جی ایس ٹی کی وصولی ایک لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر۲۷ء۲لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ تعلیمی ادارے ، میڈیکل کالج، ایمس، آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی کھل چکے ہیں‘‘۔
تاریخی تناظر کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ نے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے جموں و کشمیر کے حوالے سے دو بڑی غلطیاں کی تھیں۔ ایک، ہندوستانی فوج کے پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر ہندوستانی فوج کے کنٹرول کرنے سے پہلے ہی جنگ بندی کا اعلان کرنا اور دوسرا چارٹر ۵۱کی بجائے چارٹر ۳۵کے تحت جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے جانا۔ اس سلسلے میں پنڈت نہرو کی طرف سے نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبداللہ کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ نے کہا کہ پنڈت نہرو نے خود ان غلطیوں کا اعتراف کیا تھا۔
اس دوران کانگریس، ترنمول کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اراکین آپس میں بات چیت کرتے رہے ۔ شاہ نے کہا کہ کانگریس آزادی کے بعد سے ہی پسماندہ طبقات کے خلاف رہی ہے ۔ کالیلکر کمیٹی کی رپورٹ کو دباتے رہے ۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ کی مخالفت کی اور دیگر پسماندہ طبقات سے متعلق کمیشن کو آئینی درجہ نہیں دیا۔ انہیں یہ حق دلانے کا کام مودی سرکار نے ہی کیا ہے ۔
بعد ازاں دونوں بل ایوان میں صوتی ووٹ سے منظور کر لیے گئے ۔