سرینگر//
جنوبی ریاست کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس نے واضح برتری سے میدان مار لیا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے انتخابات میں شکست بھی تسلیم کر لی ہے۔
ہفتے کی شام تک آنے والے نتائج کے مطابق کانگریس کو ۲۲۴ کے ایوان میں۱۳۷ نشستیں مل گئی ہیں جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی۶۵؍اور جنتا دل سکیولر کو۱۹ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ کرناٹک میں حکومت بنانے کیلئے۱۱۳؍اراکین کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ کانگریس اس سے کہیں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
علاقائی جماعتوں کلیانا راجیہ پرگتی پکشھا اور سروودیہ کرناٹکا پکشھا نے ایک ایک نشست حاصل کر لی ہے جب کہ دو آزاد امیدواروں کو بھی کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
کرناٹک کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ اور بی جیپی لیڈر بسواج سوماپا بومئی‘جو مستعفی ہو گئے ہیںنے صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا’’ہم نشان تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اس کے باوجود کہ وزیرِ اعظم سے لے کر عام بی جے پی کارکن نے ان انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے بھرپور کوشش کی تھی‘‘۔
بومئی نے مزید کہا کہ ہم کرناٹک اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس مشکل صورتِ حال سے بہتر انداز میں باہر آنے کا مکمل حوصلہ رکھتے ہیں۔
کانگریس کے سرکردہ لیڈر راہل گاندھی نے کرناٹک میں کانگریس پارٹی کی جیت کو اس کے غریب عوام اور سکیولر طاقتوں کی فتح قرار دے دیا۔انہوں نے نئی دہلی میں نامہ نگاروں کو بتایا ’’ہم نے کرناٹک میں یہ لڑائی نفرت کے خلاف محبت کے ساتھ لڑی۔ ہماری کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ ملک محبت کی زبان جانتا اور سمجھتا ہے۔ کرناٹک میں نفرت کا بازار بند ہوگیا ہے اور محبت کی دکان کھل گئی ہے‘‘۔
راہل گاندھی ‘جنہوں نے اپنی بہن پرینکا گاندھی کے ساتھ مل کر کرناٹک میں کانگریس پارٹی کے حق میں انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا کہا کہ نئی حکومت عوام سے کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اب بھارت کی ہر ریاست میں ہوگا۔
ان انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور جنتا دل سکیولر (جے ڈی ایس) کے درمیان ہی تھا اگرچہ عام آدمی پارٹی نے بھی جو دہلی اور ریاست پنجاب میں بر سرِ اقتدار ہے انتخابات میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی۔
یہ اسمبلی انتخابات بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں کیوں کہ بھارت کے کئی سیاسی مبصرین کی رائے میں کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھارت میں اگلے برس ہونے والے عام انتخابات کے لیے رجحان ساز ثابت ہو سکتے ہیں۔
کئی ہفتے تک جاری رہنے والی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس کے چوٹی کے لیڈروں نے روڑ شوز، ریلیوں اور عوامی جلسوں کا انعقاد کیا تھا اور اس کے علاوہ گھر گھر جا کر رائے دہند گان کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔