سرینگر//
کشمیر کی دیگر دستکاریوں کی طرح گھاس کی چٹائی، جس کو کشمیری زبان میں’وگو‘ کہتے ہیں، تیار کرنا بھی ایک قدیم اور روایتی دستکاری ہے جو قالین و دیگر اقسام کے خوبصورت اور پائیدار فرنشنگ ساز و سامان آنے سے ناپید ہو رہی ہے ۔
وگو (گھاس کی چٹائی) ایک مخصوص سوکھے گھاس سے تیار کی جاتی ہے جس کو بنانے کیلئے کسی مشین کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ صرف ہاتھوں کا استعمال کرکے اس چٹائی کو تیار کیا جاتا ہے ۔
کشمیر میں ایک زمانے میں قالین و دیگر فرنشنگ سامان کے آنے سے پہلے وگو سے ہر گھر کا فرش سجایا اور سنوارا جاتا تھا اور ہر سو شہر و دیہات میں اسی کا رواج اور راج تھا۔
اس دستکاری کو زندہ رکھنے کیلئے جہاں اس سے وابستہ دستکار محو جد وجہد ہیں وہیں متعلقہ محکمے نے اس میں ضمن میں اقدام کرنے شروع کئے ہیں۔
سرینگر کے موتی محلہ ڈل سے تعلق رکھنے والے محمد عباس نے یو این آئی کو بتایا ’’ محکمہ ہینڈی کرافٹس نے ہمارے محلے میں ایک سینٹر قائم کیا ہے جس میں ہم گھاس کی چٹائیاں تیار کر رہے ہیں‘‘۔
عباس نے کہا’’ہم اس دستکاری کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اب محکمہ ہینڈی کرافٹس نے اس کیلئے ایک سینٹر قائم کیا ہے جس میں وگو تیار کئے جا رہے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی کنبے اس پیشے سے وابستہ تھے جن کی روزی روٹی کا انحصار اسی پر منحصر تھا لیکن پھر قالین وغیرہ آنے سے یہ لوگ بے کار ہوگئے اور یہ دستکاری بھی ناپید ہونے لگی۔
کاریگر نے کہا کہ وگو بنانے کیلئے استعمال کی جانے والی مخصوص گھاس بھی نایاب ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وگو بنانے کیلئے ضروری مواد ملنا مشکل ہوگیا ہے گھاس نایاب ہو رہی ہے اگر ملتی ہے تو وہ بھی کافی مہنگا ہوئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ سینٹر میں تیار کی جانے والی یہ گھاس کی چٹائیاں بھی قدیم طرز کی چٹائیوں جیسی ہیں لیکن یہ ان سے زیادہ پائیدار اور سنگین ہیں۔
عباس نے کہا کہ ہمارے سینٹر میں کم سے کم دس کاریگر کام کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ اس پیشے کو آج بھی روز گار کا ایک موثر ذریعہ بنایا جا سکتا ہے اور اس روایتی دستکاری کو بھی زندہ رکھا جاسکتا ہے بشرطیکہ حکومت اس کی طرف مزید متوجہ ہوجائے ۔
کاریگر نے کہا’’محکمہ کو چاہئے کہ مزید سینٹر قائم کرے جس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں کاریگر کام کر سکیں جس سے نہ صرف زیادہ تعداد میں چٹائیاں تیار ہوں گی بلکہ یہ دستکاری بھی زندہ رہے گی‘‘۔
عباس کا کہنا تھا کہ نئی پود تب ہی اس پیشے کو اختیار کرے گی جب اس سے روز گار کی سبیل ہوجائے گی۔انہوںنے کہا کہ جس طرح حکومت دیگر دستکاریوں کو زندہ رکھنے کیلئے اسکیمیں متعارف کر رہی ہے جن کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج بر آمد ہو رہے ہیں اسی طرح اس دستکاری کو زندہ رکھنے کیلئے ایک خصوصی اسکیم متعارف کرنے کی ضرورت ہے ۔
عباس نے کہا کہ حکومت کے سپورٹ سے یہ دستکاری بھی ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنی شان رفتہ کو بحال کر سکتی ہے ۔