سرینگر//
وادی کشمیر کا باوا آدم ہی کچھ نرالا ہے یہاں لوگوں کو اپنے جائز مطالبات کیلئے احتجاج کی صدا بلند کرنے پر مجبور ہوناپڑرہا ہے ۔
اس کی تازہ نظیر سرینگر کی ہے جہاں اے پی ایل صارفین کو ماہانہ راشن فراہم کرنے میں لیت ولعل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے اُنہیں بازاروں سے منہ مانگے داموں پر اناج خریدنا پڑ رہا ہے اور اس طرح سے ذخیرہ اندوزدولت کی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہے ہیں اور متعلقہ محکمہ بی پی ایل کے ذمرے میں آنے والے صارفین کو راشن کا کوٹا فراہم کرکے سکون کی نیند سوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔
فدا حسین نامی ایک صارف نے بتایا کہ پچھلے ایک ہفتے سے سرکاری راشن گھاٹ پر اناج کی خاطر گیا لیکن وہاں پر تعینات عملے نے بتایا کہ ابھی تک اُنہیں اے پی ایل کوٹے کے تحت متعلقہ محکمہ نے راشن فراہم نہیں کیا جس وجہ سے وہ چاول فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔
شہری نے بتایا کہ محکمہ فوڈ کی جانب سے ہر ماہ پہلے ہفتے میں ہی راشن کی تقسیم کاری کا عمل مکمل کیا جاتا ہے لیکن رواں ماہ ابھی تک راشن کی تقسیم کاری نہیں ہوئی جس وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے کنبوں کو فاقہ کشی پر نوبت پہنچ گئی ہے ۔
حسین نے بتایا کہ امیر لوگ بازاروں سے اونچے داموں چاول خرید سکتے ہیں لیکن غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزر بسر کرنے والے کہاجائیں گے ۔
نوہٹہ سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد نامی طالب علم نے بتایا کہ راشن گھاٹوں پر صرف بی پی ایل کوٹے کا راشن ذخیرہ کر لیا گیا لیکن اے پی ایل کے تحت جو کنبے آتے ہیں اُن کے لئے راشن گھاٹوں پر اناج ہی نہیں ۔انہوں نے بتایا کہ محکمہ فوڈ کے عہدیدار اگر چہ سب کچھ ٹھیک ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر یہ دعوے سفید جھوٹ ہے ۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ محکمہ کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے لوگ اب بازاروں سے مہنگے داموں اناج خریدنے پر مجبور ہیں۔
یو این آئی اردو نے جب یہ معاملہ مختلف راشن گھاٹوں میں تعینات منشیوں کے ساتھ اُٹھایا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک اُن کے پاس بی پی ایل صارفین کا راشن پہنچا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وہ بی پی ایل راشن اے پی ایل کنبوں میں تقسیم نہیں کرسکتے ہیں لہذا اس حوالے سے محکمہ فوڈ کے اعلیٰ عہدیدار ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔