سرینگر//(ندائے مشرق ڈیسک)
مرکزی اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے جمعرات کو لوک سبھا میں کہا کہ حکومت سالانہ حج کی میزبانی سے متعلق سعودی عرب کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے، لیکن اس نے ۱۰؍ ابتدائی مقامات سے عازمین کو بھیجنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
نقوی نے کہا کہ کووڈ ۱۹ وبائی امراض کی وجہ سے پچھلے دو سالوں سے کوئی حج نہیں ہوا ہے۔
مرکزی وزیر نے آج لوک سبھا میں وقفہ صفر کے دوران کہا’’ہم چاہتے ہیں کہ اس سال حج ہو۔ لیکن یہ سعودی عرب کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن اپنے طور پر، ہم نے۲۱ میں سے۱۰ ایمارکنگ پوائنٹس پر تیاری شروع کر دی ہے۔‘‘
نقوی نے کہا کہ مودی حکومت احترام کے ساتھ ترقی اور بغیر نظرانداز کئے بااختیار بنانے کی پالیسی پر کام کررہی ہے جس کی وجہ سے فلاح و بہبود کے منصوبوں کا فائدہ سبھی طبقوں کے ساتھ اقلیتی سماج کو برابر مل رہا ہے ۔
اقلیتی امور کے مرکزی وزیر نے کہا کہ انہوں نے حکومت کے مختلف منصوبوں کے اقلیتی سماج کے لوگوں کو ملنے والے فائدے کے موضوع پر ایک سروے کرایا تھا جس کے مطابق ملک میں جن دو کروڑ۳۱لاکھ غریب لوگوں کو پکا گھر دیا گیا،ان میں سے۳۱فیصد اقلیتی علاقے میں رہنے والے لوگ ہیں۔
اسی طرح۱۲کروڑ کسانوں کو سمان نیدھی کا فائدہ ملا ہے جس میں سے۳۳فیصد اقلتی علاقے میں رہنے والے مسلم ،عیسائی ،سکھ اورجین سماج کے لوگ ہیں۔
نقوی نے بتایا کہ اجولا یوجنا کا فائدہ نو کروڑ خواتین کو ملا ہے جن میں سے۳۷فیصد اقلیتی سماج کی ہیں۔ود روزگار کے تحت، مدرا یوجنا کے۳۴کروڑ استفادہ کنندگان ہیں‘ جن میں سے۶ء۳۵فیصد اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
نقوی نے کہا’’ترقی کا مسودہ ہماری حکومت کے لیے ووٹ کا سودا نہیں ہے ‘‘۔
اقلیتی امور کی وزارت کے کم بجٹ مختص کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک وزارت کو بجٹ مختص کرنے کا تعلق ہے تو ہم آئینہ دکھائیں گے پھر پریشانی ہوگی۔ ہماری حکومت میں آنے سے پہلے سال۲۰۱۳۔۱۴میں بجٹ مختص۱۸۸۸کروڑ روپے تھا اور اصل اخراجات۱۸۱۴کروڑ روپے تھے ۔ جبکہ مالی سال۲۱۔۲۰۲۰میں بجٹ مختص۲۵۳۰کروڑ روپے تھا اور اصل خرچ تقریباً ۲۴۰۰کروڑ روپے تھا۔
نقوی نے کہا کہ وزارت کا بجٹ صحیح طریقے سے خرچ ہو رہا ہے اور ہم زمین پر اس کے اثرات کو دیکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اقلیتی وزارت وزیر اعظم نریندر مودی نے نہیں بنائی ہے ۔
کانگریس کے ڈاکٹر محمد جاوید نے الزام لگایا کہ اقلیتوں کی وزارت اقلیتوں کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے ، اس لیے اسے بند کر دینا چاہیے ۔