سرینگر//(ویب ڈیسک)
پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون ۲۰۱۸ میں اسمبلی کی تحلیل سے ٹھیک پہلے جموں و کشمیر کے وزیر اعلی بننا چاہتے تھے حالانکہ ان کے پاس صرف چھ ایم ایل اے تھے۔
اُس وقت اور جموں کشمیر کے آخری گورنر ستیہ پال ملک نے ’دی وائر‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ۲۰۱۸میں ان کے ذریعہ جموں و کشمیر اسمبلی کی تحلیل سے قبل پردے کے پیچھے کی سیاسی چالوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لون کو مرکز کا ’منظور نظر‘ قرار دیا۔
ملک نے کہا کہ انہوں نے لون سے کہا تھا کہ وہ انہیں۸۷ رکنی ایوان میں اس حمایت کے بارے میں لکھیں۔ لون نے کہا کہ ان کے پاس چھ ایم ایل اے ہیں لیکن ’’مجھے بتایا کہ اگر آپ مجھے حلف دلائیں تو میں ایک ہفتے میں اپنی اکثریت ثابت کردوں گا‘‘۔
جموں کشمیر کے سابق گورنرنے ان حالات کے بارے میں بات کی جن میں انہوں نے نومبر۲۰۱۸ میں اسمبلی کو تحلیل کر دیا حالانکہ پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے کانگریس اور نیشنل کانفرنس (این سی) کی حمایت سے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔
محبوبہ کی سربراہی میں پی ڈی پی،بی جے پی حکومت اس سے قبل جون۲۰۱۸ میں بی جے پی کے اتحاد سے باہر ہونے کے بعد گر گئی تھی۔
ملک نے کہا کہ انہوں نے لون سے کہا تھا ’’یہ گورنر کا کردار نہیں ہے اور میں ایسا نہیں کروں گا۔ سپریم کورٹ مجھے کوڑے لگائے گی۔ اگلے دن سپریم کورٹ کہے گی کہ آپ ایوان کو طلب کریں۔ تم ہار جاؤ گے‘میں ایسا نہیں کروں گا‘‘۔
گورنر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی پی،این سی،کانگریس اتحاد کو اکثریت حاصل ہو سکتی ہے لیکن ’بے وقوفی‘ سے انہوں نے کوئی رسمی میٹنگ نہیں کی اور نہ ہی کوئی قرارداد منظور کی اور نہ ہی ’خاتون (محبوبہ) کو حمایت کا خط دیا‘۔
ملک نے کہا کہ انہوں نے اس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے صورتحال کے بارے میں بات کی تھی اور مرکز سے ہدایات مانگی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جیٹلی سے کہا تھا کہ اگر انہیں محبوبہ مفتی کا خط ملتا ہے جس میں حکومت بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے تو میں انہیں حلف کے لیے بلانے کا پابند ہوں۔’’مرکز نے مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا تھا اور کہا تھا کہ میں جو مناسب سمجھوں کروں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے نومبر ۲۰۱۸ میں اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔
محبوبہ مفتی ۵۶؍ ایم ایل ایز کی حمایت کے ساتھ گورنر ہاؤس پہنچنا چاہتی تھیں جن میں کانگریس اور این سی شامل تھے، لیکن جموں میں راج بھون کی فیکس مشین’ خراب‘ ہونے کی وجہ سے یہ خط نہیں پہنچایا جا سکا۔