تحریر:ہارون رشید شاہ
کیا یہ لا علاج بیماری ہے جو اس کا کوئی علاج نہیں ہو رہاہے …؟ ہمیں یقین ہے کہ یہ کوئی لا علاج بیماری نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ جب کووڈ کا علاج اور اس کی ویکسین تلاش کر لی گئی ہے تو…تو ملک کشمیر میں ٹریفک کے مسئلہ کا بھی یقینا کوئی حل ہو گا … اور سو فیصد ہو گا … بس اسے تلاش کرنے ‘ اسے کھوج نکالنے کی دیر ہے ۔ ہاں ایک بات اور کہ ہر بار اور ہر جگہ فلائی اووروں کا جال بچھانا ہی ٹریفک کے مسئلہ کا حل نہیں ہے … یہ مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتا ہے… اگر ایسا ہو تا تو… تو پھر ملک کشمیر کے اس شہر خستہ میں بھی ایک آدھ بڑا لمبا اور چوڑا فلائی اوور تعمیر کیا گیا … کیا اس سے ٹریفک کا مسئلہ حل ہوا … نہیں ہوا اور بالکل بھی نہیں ہوا ۔ فلائی اوور تک پہنچنے میں جس محنت اور مشقت کی ضرورت پڑتی ہے اتنی محنت ماؤنٹ ایوریسٹ کو سر کرنے میں بھی نہیں کرنی پڑتی ہو گی ۔اور جب آپ ایک بار فلائی اوور پر پہنچ جاتے ہیں… آپ کی گاڑی ایک لمبا سانس لیتی ہے … اور …اور فلائی اوور ختم ہونے کے بعد آپ چاہیں رام باغ کی طرف رخ کریں یا برزلہ کی جانب ‘ آپ کی ڈرائیوری کے ہنر اور آپ کی گاڑی کا امتحان پھر شروع ہو جاتا ہے…اور یہ امتحان صرف ’پیک‘ یا ’رش‘ اوقات میں ہی نہیں ہو تا ہے…بلکہ پورا دن یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے …ٹریفک کا مسئلہ چلتا ہے ‘ شہر خستہ کی ہر ایک سڑک پر چلتا ہے… ان سڑکوں پر گاڑیاں کم اور ٹریفک مسئلہ زیادہ چلتا رہتا ہے اور… اور کب تک چلتا رہے گا … ہم نہیں جانتے ہیں ‘ بالکل بھی نہیں جانتے ہیں کہ … کہ اگر ہم کچھ جانتے ہیں تو… تو صرف اتنا کہ اس مسئلہ کا کوئی حل تو ہو گا … اور ضرور ہو گا …بس اسے تلاش کرنے ‘ اسے کھوج نکالنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ صرف ملک مسئلہ کو ہی درپیش تو نہیں ہے… ملک کشمیرکے اُس پار والے حصے‘ اپنے جموں شہر میں اگر اس مسئلہ پر قابو پایا جا سکتا ہے… ٹریفک جام نامی بیماری کا بڑی حدتک علاج کیا جا سکتا ہے تو … تو ملک کشمیر اور اپنے شہر خستہ میں کیوں نہیں ؟ یقینا یہاں بھی اس کا حل نکالاجا سکتا ہے اور… اور نکالا جانا چاہئے کیونکہ گھر سے نکلنا اب عذاب بنتا جارہا ہے اور… اور سو فیصد بنتا جارہا ہے ۔ ہے نا؟