سرینگر//
مرکزی حکومت کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں غیر شادی شدہ نوجوانوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور جموں و کشمیر اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
نیشنل یوتھ پالیسی ۲۰۱۴کے مطابق۱۵ سے۲۹ سال کی عمر کے افراد کو نوجوانوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر شادی شدہ مردوں کی آبادی میں ۲۰۱۱ میں۸ء۲۰ فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر سنہ ۲۰۱۹ میں۱ء۲۶فیصد ہوگئی ہے۔ وہیں خواتین کے معاملے میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھا گیا ہے۔
۲۰۱۹ میں نوجوانوں کی آبادی کا سب سے زیادہ فیصد حصہ جن کی شادی نہیں ہوئی وہ جموں اور کشمیر میں ہیں۔ اس کے بعد اتر پردیش، دہلی اور پنجاب اور سب سے کم شرح کیرالہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش میں دیکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق۲۰۱۱ میں شادی نہ کرنے والے نوجوانوں کی شرح ۳ء۲۵ فیصد‘۲۰۱۵ میں۹ء۲۵ فیصد اور۲۰۱۹ میں۱ء۲۹ فیصد تھی۔
بھارت میں خواتین جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی ان کی شرح ۲۰۱۱میں ۵ء۱۳فیصد‘۲۰۱۵ میں۴ء۱۶ فیصد اور۲۰۱۹ میں۹ء۱۹ فیصد تھی۔
جب اس اعداد و شمار کے حوالے سے ماہرین سے رابطہ کیا تو اْن کا کہنا تھا ’’کشمیر میں شادیوں پر فضول خرچی اور ذات پات چند ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بیشتر نوجوانوں کی عمر بغیر شادی کے گزار جاتی ہے‘‘۔
ہیلپنگ ہنڈز نامی غیر سرکاری تنظیم کے صدر عمر وانی کا کہنا تھا ’’آج کل ٹرینڈ بن گیا ہے کہ لڑکے کے پاس سرکاری نوکری اور جائیداد ہونی چاہیے جس کے بعد شادی کی بات آگے بڑھتی ہے۔ ویسے ہی جب لڑکے والے لڑکی دیکھنے جاتے ہیں تو یہ دیکھا جاتا کہ لڑکی کتنی خوبصورت، کتنی جائیداد ساتھ لائی گی اور نوکری کرتی ہے یا نہیں۔ یہ سب چیزیں شادی کو مْشکل بناتی ہیں‘‘۔
وانی کا مزید کہنا تھا ’’شادی کی تقریبات کے وقت بھی اتنا فضول خرچ کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کیلئے مشکل ہو جاتا ہے۔ جتنا خرچ کیا جاتا ہے اس سے کئی یتیم بچوں کی شادی ہو سکتی ہے‘‘۔ انہوں نے عوام سے شادی تقریبات میں فضول خرچ نہ کرنے کی اپیل کی۔
وہیں سماجی کارکن سولہ صبرو کا کہنا ہے’’کشمیر میں شادی کرنے کے لیے سماج کے بنائے گئے رسم و رواج پورے کرنے کے لیے برسوں لگ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ کہ ہمارے آس پاس شادی کے تجربات سے بھی لوگ گھبراتے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے شادی کے بعد یا تو طلاق ہوتی ہے یا تو تشدد۔ اْنہوں نے مزید کہا ’’ہر کوئی اپنے خواب پورے کر کے شادی کرنا چاہتا ہے کوئی یہ نہیں سوچتا ہے کہ ہم شادی کے بعد بھی ایک ساتھ اپنے خواب پورے کر سکتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کو گائیڈنس دے کر کہا جائے کہ شادی کے بعد بھی خواب پورے ہوتے ہیں تو وہ بیس سال کی عمر پار کر تے ہی شادی کریں گے‘‘۔
ایڈوکیٹ فضا فردوس کا کہنا ہے کہ کشمیر میں رسم و رواج، شادی میں تاخیر کی وجہ ہے۔ کشمیر میں شادیوں میں نئی رسم رواج سے متوسط طبقہ کے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادیاں دیر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذات پات کی وجہ سے کشمیر میں شادیوں کے لیے رشتے ملنا بہت مشکل ہوگیا جس کی وجہ سے لڑکیاں شادی کی عمر کو کنوارے ہی میں عبور کرتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں اب لڑکیاں پڑھنے میں زیادہ دھیان دیتی ہے جس کے بعد وہ نوکریوں کی تلاش میں رہتی ہیں جس کی وجہ سے جموں و کشمیر میں نوجوانوں میں دیر سے شادی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔