واشنگٹن//
امریکی صدر جو بائیڈن بدھ کے روز مشرق وسطیٰ کی اہم یاترا پر اسرائیل پہنچ رہے ہیں جہاں وہ خلیجی اتحادیوں کو تیل کی پیداوار بڑھانے سمیت دیگر ’اہم‘ امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
یروشیلم میں دو روزہ قیام کے دوران صدر بائیڈن اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے جبکہ جمعہ کے روز اپنے دورے کے آخری مرحلے پر وہ فلسطینی رہمنا محمود عباس سے غرب اردن میں ملاقات کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا اگرچہ اسرائیل کا 10واں دورہ ہے، تاہم اس دوران وہ چند ایسی ملاقاتیں کرنے جا رہے ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات ہوں گی۔
تیرہ جون القدس کے معیاری وقت بعد از دوپہر بائیڈن تل ابیب کے بن گورین ہوائی اڈے پر اتریں گے، جہاں وزیر اعظم یائر لپیڈ ان کا استقبال کریں گے۔ یہ 2013 کے بعد دونوں رہنماؤں کی دوسری ملاقات ہو گی۔
بائیڈن اپنے دورے کے دوران صہیونی وزیر دفاع کی معیت میں اسرائیل کی متعدد سکیورٹی تنصیبات کا بھی دورہ کریں گے۔ غالب امکان ہے کہ وہ سینڑل اسرائیل میں تل ابیب ہوائی اڈے کے نواح میں واقع البالماش ایر بیس کا دورہ کریں، جہاں وہ آئرن ڈوم نامی ایئر ڈیفنس بیڑیوں کی نمائش دیکھیں گے، جو اس امر کا اشارہ ہے کہ جو غزہ جنگ کے بعد سے امریکہ کی طرف اسرائیل کو ائر ڈیفنس خریداری کے لیے 500 ڈالر دینے کی رضا مندی ظاہر کرتا ہے۔
اسرائیلی عہدیدار نے ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کو بتایا ہے کہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ صدر بائیڈن اپنے ہم منصب اسرائیلی عہدیداروں سے مذاکرات کے دوران اس بات کی منظوری دے دیں کہ تل ابیب iron beam نامی ایئر ڈیفنس کی خریداری کے لیے امریکی فوجی انڈسٹریل کمپلیکس سے مذاکرات شروع کر سکتے ہیں۔
بعد ازاں امریکی صدر دوسری جنگ عظیم میں ہالو کاسٹ کی یاد میں بنائے گئے ’’یاد فاشیم‘‘ نامی میوزیم کا دورہ کریں گے۔
دوسرے دن کے آغاز پر صدر بائیڈن اور ہائر لپیڈ سے ملاقات کریں گے جس کے بعد دونوں رہنما مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ اس کے بعد دونوں رہنما ویڈیو لنک کے ذریعے I2U2 نامی کلب کی میٹنگ میں شرکت کریں گے۔ اس اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم مودی اور امارات کے صدر محمد بن زاید آل نھیان بھی شرکت کریں گے۔
صدر بائیڈن کی اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ سے ملاقات ہو گی اور بعد ازاں وہ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بنیامین نیتن یاہو سے بھی ملیں گے۔جمعہ کے دن امریکی صدر مقبوضہ مشرق بیت المقدس میں ’’اوغوستا وکٹوریا‘‘ ہسپتال کا دورہ کریں گے۔ کسی بھی امریکی صدر کا اولڈ بیت المقدس کی حدود سے باہر فلسطینی اکثریت والے علاقے کا پہلا دورہ ہو گا۔
بعد ازاں جو بائیڈن فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملنے بیت لحم جائیں گے، جہاں وہ واپسی پر وہ براہ راست سعودی عرب جائیں گے جہاں وہ سعودی حکام سے ملاقات کے علاوہ خلیج تعاون کونسل کے اس اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں امریکہ، اردن، مصر عراق کو بھی شرکت کی دعوت ہے۔
امریکی حکام کے بقول بائیڈن کے پہلے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران سفارتی محاذ پر تاریخی نوعیت کی پیش رفت کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔
پچھلے سال 15 اگست سے افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آ جانے سے امریکی ساکھ کو ضرب لگی تھی۔ اس کے بعد روس کا یوکرین پر حملہ، گویا امریکہ کے لیے یکے بعد دیگرے دو بڑے مسئلے پیدا ہو گئے اور امریکہ کو دو بڑے دھچکے لگ گئے۔
دنیا میں قوت وہیبت کے کم ہونے کے تاثر کا ازالہ کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں ایسے فیصلوں میں سرعت دکھانا دنیا میں امریکی غلبے کی بھی ضرورت ہے اور توانائی کے چیلنج کو بڑھنے سے پہلے روکنے کی بھی۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اپنے دورے میں صدر بائیڈن امریکی اسلحے کی صنعت کے لیے خطے میں نئے امکانات کا جائزہ لینے اور ان امکانات کی روشنی میں آنے والے برسوں میں اہم فیصلے کرنا بھی شامل ہے۔
نیز روس اور چین کی غیر معمولی قربت کے سیاسی، عسکری، جغرافیائی اور معاشی مضمرات کے رد کے لیے مشرق وسطٰی کے ممالک اور تیل کو متحرک کرنا اولیں مقاصد میں اہم ہیں۔
ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے علاقے میں اجتماعی سوچ کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹوں کو ختم کرنا، ایرانی ڈرونز حملوں اور میزائل حملوں سے اسرائیل، سعودی عرب اور دیگر تمام ممالک کو محفوظ بنانا کے لیے اجتماعی دفاعی نظام وضع کرتے ہوئے تمام ملکوں کو مشترکہ دشمن اور مشترکہ دفاع کی سوچ پر مجتمع کرنا، نیز اس سوچ کو ہی اصلاً معاہدہ ابراہم کی روح کے طور پر پیش کرنا اہم ضرورت ہے۔
اسرائیل کے لیے خطے میں احساس تحفظ کو بڑھانے کے لیے معاہدہ ابراہم کے اگلے مرحلے کے اہداف کو بتدریج حاصل کرنا اس سلسلے میں سوچ، راستے اور منزل کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کرنا۔
اسرائیل کے ساتھ خطے کے ملکوں میں منفی تصورات اور نفرت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش اور اس کی جگہ مشترکہ مقاصد کی عمارت تجارتی ودفاعی معاہدات کے اینٹ گارے سے تعمیر کرنا اور تعلقات کے ظاہری حسن و اظہار کے لیے نارملائزیشن کو وسعت دینے کی راہیں ہموار کرنا بھی امریکی اہداف میں شامل ہے۔
خطے کے سبھی ملکوں کو باہم ایک دوسرے کے لیے ہر حوالے سے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی مثالوں کے مطابق قابل قبول بنا دینا۔
بعض کا یہ کہہ دینا کہ یہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی ایک کاوش تک محدود ہدف ہے، یہ کافی نہیں۔ یہ معاملہ بعض پہلوؤں میں اس سے بھی آگے کا ہے۔
یورپ کو آسانی سے گیس فراہمی کے لیے اسرائیل اور لبنان کے درمیان گیس تنازعے کو اس طرح سلجھانا کہ یہ گیس یورپ کے لیے فراہم ہونا ممکن اور محفوظ ہو جائے۔
گذشتہ مہینے جون کے دوران سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل میں سیاسی چپقلش سے صہیونی ریاست کو بھونچال سی کیفیت کا سامنا ہے۔اس کے بعد یائر لپیڈ نے عبوری وزیر اعظم کے طور پر ملک کی زمام کار سنبھالی ہے جو رواں برس کے اختتام پر ہونے والے انتخابات تک برسر اقتدار رہیں گے۔