سرینگر//
یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ مرکزی حکومت کو اپنے ارادوں کے بارے میں صاف ہونا چاہئے ، جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بدھ کے روز کہا کہ اگر جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کی ضرورت ہے تو وہ بی جے پی کے وزیر اعلی کیلئے راستہ بنانے کیلئے تیار ہیں۔
ایک مقامی خبر رساں‘ کشمیر نیوز سروس سے گفتگو میںعمر عبداللہ نے کہا کہ مرکزی حکومت کو واضح طور پر یہ بتانا چاہیے کہ کیا ریاست کا درجہ صرف جموں و کشمیر میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے تحت دیا جائے گا۔
وزیرا علیٰ نے کہا’’اگر ریاست کا درجہ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی کے وزیر اعلی کی ضرورت پڑی تو میں حکومت سے الگ ہو جاؤں گا۔ کم از کم جموں کشمیر کے لوگوں کو اپنا ریاست کا درجہ واپس مل جائے گا‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ان کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت میں جموں و کشمیر کے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ توقعات کو جمہوری ٹائم لائنز کے مطابق ہونا چاہیے ، اور یہ کہ انہیں دیا گیا منڈیٹ پانچ ہفتوں یا مہینوں کیلئے نہیں ، بلکہ مکمل مدت کیلئے ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں بجلی کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور بنیادی ڈھانچے کے اہم منصوبوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا’’کل ہی ، ہم نے سڑک اور سرنگ کنیکٹیویٹی کیلئے دس ہزار۶۰۰کروڑ روپے کے پیکیج کو منظوری دی ہے‘‘۔
مظفر حسین بیگ کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہ اگر وہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تو انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے ، عمر عبداللہ نے کہا’’میں استعفیٰ کیوں دوں‘ کیا ۲۰۱۶ میں جب لوگ مر رہے تھے تو کسی نے استعفیٰ دیا تھا ؟ اس وقت ہم دودھ اور ٹافیوں کے بارے میں سن رہے تھے۔ کبھی معافی نہیں مانگی گئی‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت نے اپنے منڈیٹ کو دھوکہ نہیں دیا ہے۔ ان کاکہنا تھا’’کیا آپ کو توقع تھی کہ اسمبلی خصوصی حیثیت کیلئے قرارداد منظور کرے گی ؟ آپ نے نہیں کی۔ لیکن ہم نے یہ کی‘‘۔
ریزرویشن کے معاملے پر عمرعبداللہ نے کہا کہ یہ معاملہ قانونی وضاحت کیلئے محکمہ قانون کو بھیج دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کابینہ کا کوئی بھی فیصلہ عدالت میں پھنس نہ جائے۔ اس لئے ہم نے مناسب طریقہ کار پر عمل کیا ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ریزرویشن سے متعلق ذیلی کمیٹی نے توقع سے زیادہ تیزی سے کام کیا ہے۔ ان کاکہنا تھا’’بہت سے لوگوں نے سوچا کہ کمیٹی میں چھ سال لگیں گے۔ لیکن اس نے اپنی رپورٹ مکمل کی اور اسے جلد ہی پیش کر دی۔ یہ مسئلہ میری طرف سے پیدا نہیں ہوا تھا۔ لیکن میں اسے حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے پی ڈی پی رہنماؤں پر بھی تنقید کی کہ جب ریزرویشن کا کوٹہ بڑھایا جا رہا تھا تو وہ خاموش رہے۔ انہوں نے کہا’’تب محبوبہ مفتی کی آواز کہاں تھی ؟ سجاد لون کی آواز کہاں تھی ؟ وہ سرکاری مکانات اور سکیورٹی کی تلاش میں مصروف تھے‘‘۔
عمرعبداللہ نے یہ بھی کہا کہ پی ڈی پی رہنماؤں نے اپنے ووٹ بینکوں کی حفاظت کیلئے ریزرویشن کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا۔ان کاکہنا تھا’’وہ راجوری،پونچھ میں پہاڑی اور گجر ووٹ چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے امیدواروں سے کہا کہ وہ ریزرویشن کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’اب انتخابات ہارنے کے بعد وہ اچانک اپنی آواز بلند کر رہے ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ محکمہ قانون کا جائزہ مکمل ہونے کے بعد کابینہ جلد ہی ریزرویشن کے معاملے پر حتمی فیصلہ کرے گی۔ان کا کہنا تھا’’ہم ریزرویشن کے اس حصے کو نہیں چھو رہے ہیں جو پارلیمنٹ کے تحت آتا ہے۔ لیکن ہم اس حصے پر عمل کریں گے جو ہمارے اختیار میں ہے‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ حکومت ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گی جسے بعد میں قانونی طور پر چیلنج کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا ’’ہم ایسے فیصلے کرنا چاہتے ہیں جو قانونی طور پر درست اور لوگوں کیلئے فائدہ مند ہوں۔‘‘