ہمارے سخت ردعمل کے سبب پاکستان کو ہندوستان سے فوجی کارروائی روکنے کی درخواست کرنی پڑی:مودی
کیناناسکی (کناڈا)//
وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلیفون پر منگل کے روز دہشت گردی، آپریشن سندور، پاکستان پر بہت واضح بات چیت ہوئی جس میں مودی نے واضح الفاظ میں کہا کہ جنگ روکنے کے عوض تجارتی معاہدے یا جنگ بندی کے لیے ثالثی کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور ہندوستان اسے قطعی قبول نہیں کرتا۔
خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے کناڈا سے روانہ ہونے سے قبل ایک بیان میں یہ اطلاع دی۔
مصری نے کہا کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کی دو طرفہ ملاقات جی۷سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونی تھی لیکن صدر ٹرمپ کو جلد امریکہ واپس جانا پڑا جس کی وجہ سے یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ کی درخواست پر دونوں رہنماؤں نے فون پر گفتگو کی۔ یہ بات چیت تقریباً۳۵منٹ تک جاری رہی۔
خارجہ سکریٹری نے کہا کہ ۲۲؍اپریل کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی سے فون پر تعزیت کا اظہار کیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف حمایت کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی بات چیت تھی۔ اس لیے وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے آپریشن سندور کے سلسلے میں تفصیل سے بات کی۔
مصری نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو واضح طور پر کہا کہ ۲۲؍اپریل کے بعد ہندوستان نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے اپنے عزم کے بارے میں پوری دنیا کو بتا دیا تھا۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ۶/۷مئی کی درمیانی شب ہندوستان نے پاکستان اور پاک مقبوضہ کشمیر (پی او کے ) میں صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ ہندوستان کی کارروائی انتہائی محدود، ہدف بند اور غیر اشتعال انگیز تھی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ہندوستان پاکستان کی گولی کا جواب گولے سے دے گا۔
مصری نے بتایا کہ وزیر اعظم نے امریکی صدر کو بتایا کہ۹مئی کی رات نائب صدر جے ڈی وانس نے انہیں (وزیر اعظم مودی) کو فون کیا تھا۔ نائب صدر وینس نے کہا تھا کہ پاکستان ہندوستان پر بڑا حملہ کر سکتا ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے انہیں صاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو ہندوستان پاکستان کو اس سے بھی بڑا جواب دے گا۔
مودی نے ٹرمپ کو بتایا کہ ہندوستان نے ۹/۱۰مئی کی درمیانی شب پاکستان کے حملے کا بہت سخت جواب دیا اور پاکستانی فوج کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس کے فوجی ائیر بیس کو غیر فعال کر دیا گیا۔ ہندوستان کے سخت ردعمل کے سبب پاکستان کو ہندوستان سے فوجی کارروائی روکنے کی درخواست کرنی پڑی۔
وزیر اعظم مودی نے واضح طور پر صدر ٹرمپ کو بتایا کہ اس پوری کارروائی کے دوران، کسی بھی وقت، کسی بھی سطح پر، ہند،امریکہ تجارتی معاہدے یا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امریکہ کی ثالثی جیسے مسائل پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ فوجی کارروائی روکنے سے متعلق بات چیت دونوں فوجوں کے موجودہ چینلز کے ذریعے اور پاکستان کی درخواست پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان براہ راست ہوئی۔
مصری کے مطابق وزیر اعظم مودی نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان نے کبھی بھی ثالثی کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ کبھی قبول کرے گا۔ اس معاملے پر ہندوستان میں مکمل سیاسی اتفاق رائے ہے ۔
خارجہ سکریٹری نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اب دہشت گردی کو پراکسی وار نہیں بلکہ مکمل جنگ کے طور پر دیکھتا ہے اور پاکستان کے خلاف ہندوستان کا آپریشن سندور ابھی جاری ہے ۔
مصری نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی سے پوچھا کہ کیا وہ کناڈا سے واپسی پر امریکہ میں کچھ قیام کر سکتے ہیں۔ لیکن پہلے سے طے شدہ پروگراموں کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے اپنی نااہلی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ مستقبل قریب میں ملاقات کی کوشش کریں گے ۔
خارجہ سکریٹری نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری تنازع پر بھی بات کی۔
روس یوکرین تنازع پر دونوں نے اتفاق کیا کہ جلد از جلد امن کے لیے فریقین کے درمیان براہ راست بات چیت ضروری ہے اور اس کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ دونوں رہنماؤں نے ہند-بحرالکاہل خطے کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا تبادلہ کیا۔ اور اس خطے میں کواڈ کے اہم کردار پر حمایت کا اظہار کیا۔
مصری نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو کواڈ کی آئندہ میٹنگ کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ صدر ٹرمپ نے دعوت قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کے دورے کے منتظر ہیں۔