سرینگر//
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے دوران ایران میں پھنسے جموں کشمیر کے۹۰ طلبا کو بحفاظت آرمینیا منتقل کیا گیا ہے، تاہم سینکڑوں طلبا اب بھی ایران میں موجود ہیں اور ان کے اہل خانہ شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے مطابق وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ۹۰ طلبا، جو ایران کی میڈیکل یونیورسٹی ارومیہ میں زیر تعلیم تھے، انہیں ایران کی سرحد پار کرا کے آرمینیا منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نیشنل کنوینر ناصر کھوہامی نے بتایا کہ اس انخلا میں وزارت خارجہ کی مدد بھی شامل رہی۔
والدین اور طلبا تنظیموں کے اندازے کے مطابق ایران کی مختلف میڈیکل یونیورسٹیز میں اس وقت ۳ہزار سے زائد کشمیری طلبا ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ ایران میں تعلیم نسبتاً سستی ہونے اور ثقافتی مماثلتوں کے باعث وادی کے والدین اپنے بچوں کو وہاں بھیجتے ہیں۔
جمعے کو اسرائیل کی جانب سے ایران پر فضائی حملے کے بعد پیدا ہونے والی جنگی صورتحال نے کشمیری والدین کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ کئی والدین نے حکومت ہند سے فوری انخلاء کی اپیل کی ہے۔ منطور احمد نامی ایک شہری، جن کی بیٹی ایران میں زیر تعلیم ہے، نے کہا ’’ہم مسلسل رابطے میں ہیں، مگر نیٹ ورک کمزور ہو رہا ہے۔ حکومت کو انخلا میں تیزی لانی چاہیے‘‘۔
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اتوار کو وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے طلبہ کی خیریت کے بارے میں بات کی، تاہم گورنر انتظامیہ کی جانب سے انخلا کے عمل یا موجودہ تعداد پر کوئی باضابطہ تفصیل شیئر نہیں کی گئی۔
مقصود احمد، جن کی دختر ایران کی دارالحکومت تہران میں زیر تعلیم ہے، نے بتایا کہ طلبہ کو تہران سے ۱۵۲ کلومیٹر دور شہر قم منتقل کیا گیا ہے۔ ’’میری بیٹی اور اس کے ساتھی محفوظ ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بھارتی سفارت خانہ تعاون کر رہا ہے، تاہم جموں و کشمیر حکومت نے والدین سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا۔
کھوہامی کے مطابق پیر کو ۶۰۰ طلبہ کو تہران سے قم منتقل کیا گیا جن میں۱۵۰ کشمیری ہیں۔ ان کے مطابق اب تک ۱۳۰۰ میں سے ۲۵۰ سے زائد طلبہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
کھوہامی نے مزید کہا ’’باقی طلبہ اب بھی یونیورسٹیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ محفوظ تو ہیں، لیکن جنگ کے باعث شدید فکرمند بھی ہیں۔‘‘
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وزارت خارجہ سے اپیل کی ہے کہ ایران میں پھنسے طلبا کی واپسی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ والدین کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس دوران ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے بیچ وہاں زیر تعلیم کشمیری طلباء کی سلامتی کو لے کر وادی کشمیر میں بے چینی بڑھ گئی ہے ۔
اس صورتحال کے پیش نظر طلباء کے والدین نے منگل کو ایک بار پھر پریس انکلیو سری نگر میں احتجاج کیا اور حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ ایران میں پھنسے ہوئے کشمیری طلباء کی فوری اور محفوظ واپسی کیلئے ہنگامی اقدامات کرے ۔
احتجاج میں شامل والدین نے بتایا کہ ایران میں ان کے بچے شدید خوف اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں، اور روزانہ گھر فون کر کے اپنی حفاظت کے حوالے سے فکرمندی کا اظہار کر رہے ہیں۔
سرینگر کے محمد ایوب ڈار، جن کے بیٹے ایران میں زیر تعلیم ہیں، نے کہا’’ہمارے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ وہ ہمیں فون کر کے رو رہے ہیں، مدد کی فریاد کر رہے ہیں۔ ہم ہاتھ جوڑ کر حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ جلد از جلد ان کی واپسی کا بندوبست کیا جائے ‘‘۔
ڈار نے مزید کہا کہ ہم نے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر سے اپیل کی ہے کہ وہ والدین کے درد کو سمجھیں اور کشمیری طلباء کو محفوظ مقامات پر منتقل کر کے وطن واپس لائیں۔
اطلاعات کے مطابق، گزشتہ دو دنوں سے وادی کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے درجنوں والدین پریس انکلیو میں جمع ہو رہے ہیں، جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ مظاہرین سرکار سے مطالبہ کر رہے ہیں کشمیری طلبا کی فوری وطن واپسی کو جلد ازجلد یقینی بنایا جائے ۔
ذرائع کے مطابق اس وقت ایران میں مختلف تعلیمی اداروں میں۱۳۰۰سے زائد کشمیری طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن میں اکثریت مشہد اور قم جیسے شہروں میں مقیم ہے ۔ موجودہ جنگی حالات کے باعث ان میں شدید خوف و ہراس پایا جا رہا ہے ، جبکہ ان کے اہل خانہ وادی میں اضطراب کی کیفیت میں ہیں۔
والدین نے وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران میں موجود ہندوستانی سفارت خانے کو فعال کردار ادا کرنے کی ہدایت دے اور کشمیری طلباء کو فوری طور پر محفوظ زون میں منتقل کرنے کے بعد انخلاء کا منصوبہ بنائے ۔
والدین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت افغانستان، سوڈان اور یوکرین جیسے ممالک سے بھارتی طلباء کو بحفاظت نکال سکتی ہے ، تو ایران سے کشمیری طلباء کی واپسی بھی ممکن ہے بس اس کے لیے نیت اور ہمدردی کی ضرورت ہے ۔