سرینگر//(ویب ڈیسک)
وزیر خارجہ ‘جئے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ حالیہ فوجی ٹکراؤ کا تعلق کشمیر نہیں بلکہ دہشت گردی کے ایک واقعہ کے ساتھ تھا ۔
ایک انٹرویو میں جو ڈینش اخبار پولٹیکن کو دیا گیا، وزیر خارجہ نے پختہ طور پر کہا’’یہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ نہیں تھا۔ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا‘‘۔
۲۲؍اپریل کو پہلگام میں پاکستانی منسلک دہشت گردوں کے ذریعہ ہونے والے بہیمانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں۲۶ لوگ، زیادہ تر سیاح، ہلاک ہوئے۔
جئے شنکر نے کہا’’ہمارے آزاد ہونے کے بعد ۱۹۴۷سے پاکستان نے کشمیر میں ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور اس کے بعد کے آٹھ دہائیوں میں ہم نے کیا دیکھا؟ کہ بڑا، جمہوری یورپ، جیسا کہ آپ نے خود کہا، نے اس علاقے میں فوجی ڈکٹیٹروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا‘‘۔
’’کوئی بھی مغرب کی طرح فوجی حکومت کی حمایت نہیں کرتا اور پاکستان میں جمہوریت کو اتنے طریقوں سے کمزور نہیں کرتا‘‘۔
جئے شنکر نے کہا ’’جب دو ملک تنازع میں ملوث ہوتے ہیں، تو یہ فطری بات ہے کہ دنیا کے ممالک فون کرکے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان فائرنگ اور فوجی کارروائی کو روکنے کے بارے میں براہ راست دونوں مْمالک کے درمیان بات چیت ہوئی‘‘۔
واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے فریقین کے درمیان ’جنگ بندی‘ میں اہم کردار ادا کیا۔
اس کے ساتھ ہی جئے شنکر نے کہا ’ ’ہم نے نہ صرف امریکہ کو بلکہ ہر اس شخص پر جس نے ہم سے بات کی تھی، ایک بات بالکل واضح کر دی تھی کہ اگر پاکستان لڑائی روکنا چاہتا ہے، تو انھیں (پاکستان) ہمیں بتانا پڑے گا۔ ان کے فوجی جنرل کو ہمارے فوجی جنرل کو فون کرکے یہ بتانا ہوگا اور ایسا ہی ہوا‘‘۔انھوں نے کہا’ ’یہ پاکستانی فوج ہی تھی جس نے یہ پیغام بھیجا کہ وہ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں اور ہم نے اس کے مطابق جواب دیا‘‘۔
جب پوچھا گیا کہ بھارت حالیہ یوکرین تنازع کے بعد روس کی حمایت کیسے کرتا ہے، اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ بھارت ممالک کی خودمختاری اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کی حمایت کرتا ہے، وزیر خارجہ نے کہا’’لیکن میری دنیاوی سوچ اور یورپ کے بارے میں میرا نقطہ نظر میرے اپنے تجربات سے تشکیل پاتا ہے۔ آپ سرحدوں کی ناگزیریت کے بارے میں بات کرتے ہیں … تو پھر ہم اپنی سرحدوں کی ناگزیریت سے کیوں نہیں شروع کرتے؟ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے میری دنیا شروع ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں ہمیشہ بتایا گیا کہ ہمیں یہ خود حل کرنا ہے‘‘۔