نئی دہلی// فوج میں خواتین کے مستقل کمیشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کانگریس نے ہفتہ کو کہا کہ ملک کے موجودہ ماحول کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے سے خواتین افسران کے حوصلے بلند ہوں گے ۔
ونگ کمانڈر (ریٹائرڈ) انوما اچاریہ نے آج یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، "سپریم کورٹ نے فوج میں خواتین افسران کے مستقل کمیشن کے بارے میں جمعہ کو فیصلہ دیا ہے ، جو بہت راحت بخش ہے اور ملک کے موجودہ ماحول میں یہ فیصلہ خواتین افسران کے حوصلے بلند کرتا ہے ۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں ہم افواج کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور ان کی بہادری کو سلام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ اگست میں اگلی سماعت تک خواتین افسران کو بحال رکھا جائے ، ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہم ملک کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم ہر فوجی کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہیں’۔
سابق فوجی افسر نے کہا، "9 مئی کو سپریم کورٹ نے شارٹ سروس کمیشن کی خواتین افسران کی خدمات کو ان کی درخواست پر اگلی سماعت تک بحال کرنے کی ہدایات دی ہیں، عدالت نے کہا کہ ایسے وقت میں خواتین افسران کے حوصلے بلند رہنے چاہئیں، ہماری خواتین افسران باصلاحیت ہیں، اس پر مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ ہر سال صرف 250 شارٹ سروس کمیشن افسران کو مستقل کمیشن دیا جا سکتا ہے ، سپریم کورٹ نے کہا کہ فوج میں نوجوان افسروں کے لیے یہ بہت اہم ہے ۔ تجربہ کار خواتین افسران نوجوان فوجیوں کی رہنمائی اور ذہنی مضبوطی کے لیے بھی بہت اہم ہیں، عدالت کا یہ فیصلہ خواتین افسران کے لیے امید کی کرن ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں خود اس کیس سے مستفید ہوئی ہوں، خواتین افسران کی اینٹری پہلی بار 1992 میں شروع ہوئی اور 25 نومبر 1991 کو فضائیہ نے وزارت دفاع کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین افسران کو پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر لیا جائے گا، اگر یہ تجربہ کامیاب ہوا تو انہیں اگلے 6 سال کے لئے سروس میں توسیع دی جائے گی۔پھر 11 سال کے بعد خواتین افسران سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ پنشن والی سروس میں شامل ہونا چاہتی ہیں؟ 1999 سے 2004 کے درمیان جب دیگر سرکاری ملازمتوں میں او پی ایس ختم کی گئی تو اسی دوران خواتین افسران کو پنشن کا آپشن دینے کی بات ہوئی، وہ بھی ختم ہو گئی۔ بعد ازاں 2007 میں ونگ کمانڈر انوپما جوشی اورا سکواڈرن لیڈر رخسان حق نے پہلی بار یہ مقدمہ عدالت میں دائر کیا۔
انہوں نے کہا، [؟]بعد میں فوج کی خواتین افسران نے بھی اس معاملے کو آگے بڑھایا اور 2009 تک تمام مقدمات کو یکجا کرتے ہوئے ، دہلی ہائی کورٹ نے اس کیس کو 14 دسمبر 2009 کو فیصلہ کے لیے محفوظ کر لیا، 12 مارچ 2010 کو عدالت کا فیصلہ خواتین افسران کے حق میں آیا اور وزارت دفاع کا پالیسی لیٹر جاری کیا گیا تو میری جیسی 23 خواتن افسران کی مستقل کمیشن مل گیا، اس معاملے میں فوج نے کوئی پالیسی لیٹر نہیں جاری کیا تو ببیتا پونیا بمقابلہ حکومت ہند کیس میں باقی خواتین افسران کو اگلے 10 سال تک سپریم کورٹ میں اپنی جنگ لڑنی پڑی، فوج کی خواتین افسران جن میں ہماری کرنل صوفیہ قریشی بھی شامل ہیں، انہیں 2020 کے فیصلے سے پنشن ایبل سروس ملی۔بحریہ کی 9 افسران کو اگلے سال ملی لیکن یہ سب صرف ان کو ملا جو عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنے گئے ۔
صرف ان لوگوں کو دیا گیا جو عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنے گئے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ 2006 کے بعد پالیسیاں مسلسل تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ ڈھائی سال پہلے خواتین کو این ڈی اے کے طور پر فوج میں اینٹری ملی اور اب یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے 30 سال کے بعد ہم ایک یا ایک سے زیادہ خواتین کو آرمی چیف کے طور پر دیکھیں گے ، مرد افسران کے لیے سی ڈی ایس کا راستہ کھلا ہے ، اسی طرح اسپیشل انٹری اسکیم جس کے ذریعے خواتین افسران آرمی میں آتی تھیں اب آہستہ آہستہ اس پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے ۔