نئی دہلی//
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وقف (ترمیمی) بل اور مسلم وقف (منسوخ) بل کی منظوری کی ستائش کی اور کہا کہ یہ ہمارے سماجی،اقتصادی انصاف کی تلاش میں ایک اہم لمحہ ہے ۔
وزیر اعظم نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا’’پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وقف (ترمیمی) بل اور مسلم وقف (منسوخ) بل کی منظوری سماجی و اقتصادی انصاف، شفافیت اور جامع ترقی کیلئے ہماری اجتماعی جدوجہد میں ایک اہم لمحہ ہے ‘‘۔
مودی نے لکھا’’تمام ممبران پارلیمنٹ کا شکریہ جنہوں نے پارلیمانی اور کمیٹی کی بحث میں حصہ لیا، اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان قوانین کو مضبوط بنانے میں تعاون کیا۔ ان گنت لوگوں کا بھی خصوصی شکریہ جنہوں نے پارلیمانی کمیٹی کو اپنی قیمتی تجاویز بھیجیں۔ ایک بار پھر، وسیع بحث اور مکالمے کی اہمیت کی تصدیق کی گئی ہے ۔یہ خاص طور پر ان لوگوں کی مدد ملے گی جو طویل عرصے سے پسماندہ ہیں اور آواز اور موقع دونوں سے محروم ہیں‘‘۔
وزیر اعظم نے لکھا’’کئی دہائیوں سے وقف کا نظام شفافیت اور جوابدہی کے فقدان کا مترادف رہا ہے ۔ اس نے خاص طور پر مسلم خواتین، غریب مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ۔ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین شفافیت کو فروغ دیں گے اور لوگوں کے حقوق کا بھی تحفظ کریں گے ‘‘۔
مودی نے کہا’’اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوں گے جہاں نظام سماجی انصاف کے لیے زیادہ جدید اور حساس ہوگا۔ وسیع طور پر، ہم ہر شہری کے وقار کو ترجیح دینے کے لیے پابند عہد ہیں۔ اس طرح ہم ایک مضبوط، زیادہ جامع اور زیادہ ہمدرد ہندوستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے راجیہ سبھا نے وقف بورڈ ز کی جوابدہی، شفافیت اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے لائے گئے وقف (ترمیمی) بل۲۰۲۵؍اور مسلمان وقف (منسوخی) بل ۲۰۲۵کواپوزیشن کی تمام ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے جمعہ کو علی الصبح ووٹوں کی تقسیم کے ذریعے۹۳کے مقابلے میں ۱۲۸ووٹوں سے منظور کرلیا۔
اس طرح سے اس پر پارلیمنٹ کی مہر لگ گئی۔ لوک سبھا اسے پہلے ہی پاس کر چکی ہے ۔
ایوان نے ڈی ایم کے کے تروچی شیوا کی ترمیمی تحریک کو بھی ووٹوں کی تقسیم کے ذریعے مسترد کر دیا۔ اس تجویز کے حق میں۹۲؍اور مخالفت میں۱۲۵ووٹ پڑے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے کئی ارکان نے بل کے تقریباً ہر آرٹیکل میں ترامیم کی تجویز پیش کی تھی لیکن ایوان نے ان تمام تجاویز کو صوتی ووٹ سے مسترد کر دیا۔
اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے بل پر تقریباً ۱۳گھنٹے طویل بحث کارات سوا ایک بجے انتہائی مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ مسلم کمیونٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے لایا گیا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ وقف املاک میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
رجیجو نے کہا کہ حکومت نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور ملک بھر کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کی زیادہ سے زیادہ تجاویز کو بل میں شامل کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مسودہ بل اور اصل بل کے فارمیٹس کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جن جائیدادوں کے کاغذات ہیں ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ ملک کے مسلمان غریب ہیں، تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کس کی وجہ سے غریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد کانگریس کی حکومت ملک میں سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہی ہے ۔ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ چونکہ وقف بورڈ ایک قانونی ادارہ ہے اس لئے ایسے اداروں کا سیکولر ہونا ضروری ہے ، اس لیے اس میں مسلم کمیونٹی سے الگ کچھ لوگوں کو شامل کیا جا رہا ہے لیکن وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے اور وقف بورڈ کا انتظام مسلمانوں کے پاس ہی رہے گا۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ ملک بھر سے کئی وفود نے وقف بورڈ میں اجارہ داری ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تمام طبقات کو نمائندگی دے کر بل کو شامل کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس بل سے مسلمانوں کو فائدہ ہونے والا ہے اور اپوزیشن کو غیر ضروری طور پر لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہئے ۔
ان کے جواب کے بعد ایوان نے بل کو صوتی ووٹ سے منظور کر لیا۔ ترمیمی تجاویز کانگریس کے ناصر حسین، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پی سندھوش کمار، جان برٹاس، سی پی آئی (ایم) کے اے اے رحیم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے وی شیواداسن، راشٹریہ جنتا دل کے منوج جھا، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار) کی فوزیہ خان، ڈی ایم کے ، کے تروچھی شیوا، ڈی ایم کے کی کنیموزی ایک وی این سومو، آئی یو ایم ایل کے عبدالوہاب اور سی پی آئی کے پی پی سنیروغیرہ نے دی تھیں۔