نئی دہلی//
دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو جموں کشمیر کے رکن پارلیمنٹ عبدالرشید شیخ عرف انجینئر رشید کو پارلیمنٹ میں شرکت کیلئے سفری اخراجات کے طور پر جیل حکام کے پاس ۴ لاکھ روپے جمع کرانے کو کہا۔
جسٹس چندر دھاری سنگھ اور جسٹس انوپ جے رام بھمبھانی کی بنچ نے ۲۵ مارچ کو انہیں۴؍اپریل تک پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں شرکت کی اجازت دی تھی اور این آئی اے کے اس خدشے کو مسترد کردیا تھا کہ ان کے فرار ہونے کا خطرہ ہے۔
رشید کے وکیل نے جمعہ کو کہا کہ وہ پہلے ہی حکام کے پاس ایک لاکھ ۴۵ ہزارروپے جمع کرا چکے ہیں اور بقیہ۲لاکھ۵۵ہزار لاکھ روپے تین دن کے اندر جمع کرائیں گے۔
بنچ نے کہا کہ رقم جمع کرانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لئے لے جایا جائے گا۔
عدالت نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ رشید کو پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کی اجازت دینے کے حکم کا مقصد ناکام ہو اور اس لیے وہ دونوں جماعتوں کے مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ رشید کو۸لاکھ۷۴ لاکھ روپے کی کل رقم کا کم از کم ۵۰ فیصد جمع کرانا چاہئے اور معاملے کی سماعت۱۹ مئی تک ملتوی کردی۔
اس دوران این آئی اے کو ہدایت دی گئی کہ وہ چار ہفتوں کے اندر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کیلئے سفری اخراجات برداشت کرنے کی شرط کو ختم کرنے کی رشید کی عرضی پر جواب دے۔
رشید نے کہا کہ انہیں پارلیمنٹ میں شرکت کی اجازت دینے کا ۲۵ مارچ کا حکم ۲۶ مارچ کی دوپہر کو عدالت کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا اور شام کو ان کے وکیل کو جیل حکام سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں سفر اور دیگر انتظامات کیلئے ہر روز تقریبا ًایک لاکھ ۴۵ ہزارروپے ادا کرنے ہوں گے۔
شمالی کشمیر کے ممبر پارلیمنٹ نے دعویٰ کیا کہ وہ ’بہت زیادہ‘ اخراجات برداشت کرنے کے لیے مالی حالت میں نہیں ہیں اور وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور اتنے زیادہ اخراجات کے ساتھ تعصب برتنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
این آئی اے کے وکیل نے ان کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کا غلط استعمال ہے۔
رشید کے وکیل نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ کے پاس حکام کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتے ہیں اور انہیں یہ رقم جمع کرنی پڑے گی۔
انہیں پارلیمنٹ میں شرکت کی اجازت دیتے ہوئے عدالت نے سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں سے کہا تھا کہ وہ ۲۶ مارچ سے ۴؍ اپریل کے درمیان لوک سبھا سیشن کے دنوں میں رشید کو جیل سے پارلیامنٹ تک لے جائیں۔
۲۰۱۷کے دہشت گردوں کی مالی اعانت کے معاملے میں غیر قانونی سرگرمی (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمے کا سامنا کر رہے رشید نے ۱۰ مارچ کے ٹرائل کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا جس میں انہیں ۴؍ اپریل تک لوک سبھا کی کارروائی میں حصہ لینے کیلئے حراست ی پیرول یا عبوری ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
ہائی کورٹ میں انہوں نے عبوری ضمانت یا تحویل پیرول کے لئے اپنی عرضی کو چھوڑ دیا اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں ’تحویل میں‘ شرکت کرنے کی درخواست کی۔
این آئی اے نے اس عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں پارلیمنٹ میں شرکت کی اجازت دے کر انہیں اپنی رائے دینے کیلئے ایک پلیٹ فارم مل جائے گا جس کا وہ غلط استعمال کرسکتے ہیں۔
حالانکہ ہائی کورٹ نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کا کنٹرول لوک سبھا اسپیکر کے دائرہ اختیار میں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کارروائی مطلوبہ نظم و ضبط کے ساتھ چلائی جائے گی۔