واشنگٹن //
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بطور وزیر خارجہ کام کرنے والے مائیک پومپیو نے بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "خلیجی اقوام کے ساتھ تعلقات میں ترقی کے لیے حقیقی اقدامات نہیں کیے جارہے ۔” انہوں نے اس امر کا اظہار "العربیہ” کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
وہ اس سے پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ "بائیڈن انتظامیہ کی ایران اور گلف ریجن کے لیے پالیسی امریکی سلامتی کے لیے خطرات کا باعث ہے۔ اس کے بر عکس جو کام ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں کیا گیا اس سے علاقے میں استحکام آیا تھا۔”
مائیک پومپیو نے مزید کہا "بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے میں نے وہ اقدام نہیں دیکھے جو ہمیں علاقے میں اپنے پارٹنرز تعلقات کے فروغ کے لیے لینے چاہییں تھے، معاہدہ ابراہیم اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔”
انہوں نے ’’العربیہ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا "ہماری انتظامیہ نے جو خطے کے لیے کام کیا اسی کی بدولت پیٹریاٹ میزائلز اور دوسرے ہتھیار کا ایک سسٹم تیار کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں بحرین میں پانچواں بحری بیڑا بھی اسی سلسلے میں لایا گیا۔ ہمارے ان اقدامات کی بدولت خطے میں استحکام ممکن ہوا تھا۔”
سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سابق صدر کی امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے میں کامیابی کی تعریف کی۔ نیز بحرین ، سوڈان ، مراکش اوراسرائیل کے درمیان معاہدہ ابراہیم کو ٹرمپ انتظامیہ کی بڑی کامیابی کا نام دیا۔
پومپیو نے کہا "یہ بھی ٹرمپ دور میں ہوا کہ امریکہ نے مشرق وسطی میں تذویراتی اتحاد کے لیے کوششیں کیں۔ جن کا مقصد علاقے میں عسکری صلاحیتوں کو بہتر کرنا اور ایران کی طرف سے موجود خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔ تاکہ بحرین۔ سعودی عرب ، یو اے ای، عمان، مصر، قطر، کویت اور اردن کے اپنے خلاف مشترکہ ایرانی خطرے کا مقابلہ کر سکیں۔”
لیکن افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ٹرمپ دور کے بعد "میں نے بائیڈن انتظامیہ کو نہیں دیکھا کہ اس نے ہہلے والی پالیسیوں اور اقدامات کو جاری رکھا ہو یا انہیں تقویت دینے کی کوشش کی ہو۔ جس کے نتیجے میں ہمارے مخالف ایران اور ہمارے دوستوں سعودی عرب، اسرائیل، امارات کو ایک با معنی پیغام جاتا کہ امریکہ اپنے دوستوں کی مدد کے لیے تیار ہے۔”