سرینگر//
میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے حکومت ہند کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی)پر پابندی عائد کئے جانے اور اسکو غیر قانونی تنظیم قرار دینے کے فیصلے کو بلا جوازاور نامنصفانہ قرار دیتے ہوئے اس پابندی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے ۔
سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل اجتماع سے خطاب کے دوران میر واعظ نے کہاکہ کشمیری عوام کے ہر دلعزیز رہنما اور میرے والد مرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق کی قائم کردہ سیاسی و سماجی تنظیم جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کو حکومت ہند نے ایک حکم کے ذریعے غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ہے ۔
مولوی عمرفاروق نے کہاکہ اس پابندی کے حکم میں عوامی ایکشن کمیٹی پر جو عمومی الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ نہ صرف عجیب و غریب ہیں بلکہ سراسر تضاد پر مبنی ہیں۔
میرواعظ نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے ذاتی سانحات جھیلے لیکن صبر و تحمل سے کام لیا اور مشکل ترین حالات میں بھی امن کی وکالت کی، ان پر الزام ہے کہ وہ امن و امان میں خلل ڈال رہے ہیں اور بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ یہ الزامات عوامی ایکشن کمیٹی کی تاریخی خدمات اور حقائق کی روشنی میں بے بنیاد ہیں۔
مولوی عمر فاروق نے کہا کہ ایک صدی سے بھی زائد عرصہ قبل، مہاجر ملت میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے آمرانہ حکومت کے تحت دبے کچلے کشمیریوں میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ ان کے مشن کو شہید ملت نے نوجوانی میں سنبھالا جب وہ میرواعظ بنے اور۱۹۶۴میں موئے مقدس تحریک کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کی بنیاد رکھی۔
میر واعظ نے مزید کہاکہ مرحوم میر واعظ مولوی محمد فاروق ایک با بصیرت اور دلیر رہنما تھے جن کا دل عوام کیلئے دھڑکتا تھا۔ انہوں نے پوری زندگی دینی، سماجی اور تعلیمی اصلاحات کے ذریعے عوام کو با اختیار بنانے کی کوشش کی، خاص طور پر خواتین کی تعلیم، ان کے حقوق اور فلاح و بہبود پر زور دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ عوام اپنی تقدیر کے مالک بنیں۔ انہوں نے ہمیشہ اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی وکالت کی۔
مولوی عمر فاروق نے کہا کہ۱۹۸۳میں جب وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے صدر تھے توانہوں نے دہائیوں پرانے مخالفین سے صلح کی پہل کی۔ یہ ان کی عوامی اتحاد اور امن کی پالیسی کا حصہ تھا۔ وہ ہر قسم کے تشدد کے خلاف تھے ۔ آج کشمیر گزشتہ۳۵برسوں سے جن حالات سے گزر رہا ہے ، مرحوم نے اس وقت بھی نئی دہلی کی وی پی سنگھ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کشمیری نوجوانوں سے بات کرے جنہوں نے ہتھیار اٹھائے تھے اور مسئلہ کا حل تلاش کرے ۔
میرواعظ نے اس وقت قومی میڈیا پر کھل کر ایک نوجوان خاتون کے اغوا کی مذمت کی اور اسے کشمیری قوم کی بیٹی قرار دے کر رہائی کا مطالبہ کیا کیونکہ اسلام اور انسانیت ایسی بزدلانہ کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتے ۔ تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں جنہوں نے اے اے سی پر پابندی لگائی ہے ، کہ کیا ایسے اصولوں پر قائم تنظیم امن و قانون کیلئے خطرہ ہو سکتی ہے ؟
عمرفاروق نے کہا کہ جب میرے والد کو شہید کیا گیا اور میں اے سی سی کا سربراہ بنا توکیا انہیں یاد نہیں کہ یہ۱۶ سال کا نوجوان لڑکا، شدید صدمے اور غم میں ڈوبا ہوا، اپنے والد کے جنازے کے ٹرک پر کھڑا ہو کر لوگوں سے امن اور اتحاد کی اپیل کر رہا تھا؟ جب انتقام کی آگ پورے خطے کو جلا سکتی تھی، تو اگر یہ نوجوان، اس کا خاندان، اے اے سی کے قائدین اور کارکنان صبر کا دامن نہ تھامتے ، تو خدا جانے کیا ہوتا۔ تو ایسی جماعت کیسے بدامنی کی مرتکب ہو سکتی ہے ؟
میرواعظ نے کہا کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی ہمیشہ رابطے ، مکالمے اور مسئلہ کے پرامن حل کی وکالت کرتی آئی ہے ۔ جو لوگ مکالمہ چاہتے ہیں، وہ تخریبی یا ملک دشمن کیسے ہو سکتے ہیں؟ مکالمہ تو دراصل بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کا نام ہے ۔
مولوی عمر فاروق نے کہاکہ جب واجپائی جی، اڈوانی جی یا منموہن سنگھ جی ہم سے بات کر رہے تھے تو یہ نیک نیتی پر مبنی تھا۔ اگرچہ اس بات چیت کے دوران ہمیں اپنے ساتھی عبدالغنی لون صاحب، پھر میرے چچا مولوی مشتاق صاحب کی شہادت جیسے سانحات کا سامنا کرنا پڑا،تاریخی اسلامیہ ہائی اسکول کو جلایا گیا، میرے گھر پر گرنیڈ حملے ہوئے لیکن ہم نے نیک نیتی اور امن کی وکالت جاری رکھی۔
ان کاکہنا تھا’’یہ الگ بات ہے کہ آج کی مرکزی حکومت کا مسئلہ کشمیر پر ایک الگ نظریہ ہے ، مگر اس بنیاد پر اے سے سی کو غیر قانونی قرار دینا درست فیصلہ نہیں ہے ۔‘‘