جموں//
جموں میں منگل کے روز جوں ہی اسمبلی کی کارروائی شروع ہوئی تو کئی ممبران نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے غلط استعمال اور پولیس ویری فکیشن کا معاملہ اٹھایا۔
اسپیکر نے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ اور پولیس ویری فکیشن وزارت داخلہ کے پاس ہے ۔
یو این آئی نامہ نگار کے مطابق منگل کی صبح جوں ہی اسمبلی کی کارروائی شروع ہوئی تو کئی ممبران اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور اسپیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ اگرکسی کا رشتہ دار دہشت گرد ہے تو خمیازہ اس کے رشتہ داروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
اسپیکر نے ممبران کو بتایا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ اور پولیس ویری فکیشن وزارت داخلہ دیکھ رہی ہے لہذا اس معاملے میں سرکار مداخلت نہیں کرسکتی ۔
اس بیچ ممبر اسمبلی بانڈی پورہ نظام الدین بٹ اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور اسپیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ گر چہ نوکریوں کے سلسلے میں پولیس ویری فکیشن مرکزی وزارت داخلہ دیکھ رہی ہے اور ہم اس کا احترام بھی کرتے ہیں لیکن جو ویری فکیشن کی جارہی ہے وہ نوکریوں کے سلسلے میں ہیں۔
بٹ نے کہاکہ قواعد و ضوابط اور رولز کے حساب سے نوکریاں سرکار فراہم کرتی ہیں لہذا ویری فکیشن کا معاملہ بھی جموں وکشمیر سرکار کے پاس ہونا چاہئے ۔انہوں نے کہاکہ عدالت مجاز نے بھی اب اس میں مداخلت کی ہے لہذا اسمبلی میں اس اہم مسئلے پر بحث ہونی چاہئے ۔
اس بیچ سجاد لون اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ میں خود پولیس ویری فیکشن کا وکٹم رہا ہوں۔انہوں نے کہاکہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر کسی کا والد ملی ٹینٹ تھا تو سزا اس کے خاندان کو دی جائے ۔
لون نے کہاکہ ملک کی کسی بھی ریاست یا مرکزی زیر انتظام علاقے میں یہ قانون نافذ نہیں صرف جموں وکشمیر کے لوگوں کو ہی سزا دی جارہی ہیں۔
اسپیکر کے جواب سے مطمئن نہ ہو کر سجاد لون نے اسمبلی سے واک آوٹ کیا۔
اس دوران ممبر اسمبلی شوپیاں شبیر احمد کلے نے بھی پولیس ویری فکیشن کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ ایک کی سزا پورے خاندان کو نہیں دی جاسکتی ہے لہذا اس اہم مسئلے پر کھل کر بحث ہونی چاہئے ۔
اسپیکر نے ممبران کو بتایا کہ چونکہ اب عدالت مجاز نے بھی اس پر مداخلت کی ہے لہذا ، ایوان میں اس پر بحث کرنی کی کوئی ضرورت نہیں۔
راتھر نے واضح کیا کہ مرکزی زیر انتظام علاقے میں پولیس ویری فکیشن کا معاملہ وزارت داخلہ کے اختیار میں ہے ۔