جموں//
جموں کشمیر حکومت نے کہا ہے کہ اس نے زعفران کی کاشت میں کمی کو کامیابی کے ساتھ روک دیا ہے اور زعفران کی کاشت کا رقبہ۳۷۱۵ ہیکٹر پر برقرار رکھا ہے۔
وزیر زراعت جاوید احمد ڈار نے کہا کہ توسیع کیلئے نئے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور مرکز کے زیر انتظام علاقے میں زعفران کی کاشت کو فروغ دینے میں محکمہ کے کام کی تحقیقات کی جائیں گی۔
ان کاکہنا تھا’’حکومت نے زعفران کی کھیتی میں گراوٹ کو کامیابی سے روکا ہے۔۲۰۱۰۔۲۰۱۱ کے بعد سے زعفران کی کاشت کا رقبہ۳۷۱۵ ہیکٹر پر مستحکم رہا ہے جس میں کشمیر ڈویڑن میں ۳۶۶۵ہیکٹر اور کشتواڑ میں ۵۰ ہیکٹر شامل ہیں‘‘۔
وزیر زراعت نے ایوان میں وقفہ سوالات کے دوران نیشنل کانفرنس کے رکن جسٹس حسنین مسعودی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی زعفران مشن نے جموں کشمیر میں زعفران کی کاشت کو کامیابی کے ساتھ بحال کیا ہے ، جس سے کسانوں کی پیداوار اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔تاہم وزیر زراعت نے کہا کہ آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے اور زمین پر تجاوزات جیسے اہم چیلنجز بدستور موجود ہیں۔
ڈار نے کہا کہ حکومت نے۲۰۱۰۔۲۰۱۱ میں کشمیر کی زرعی یونیورسٹی کے ذریعہ تیار کردہ ایک فلیگ شپ اسکیم کے تحت ۱۱ء۴۰۰ کروڑ روپے کے مالی اخراجات کے ساتھ اس مشن کا آغاز کیا تھا۔
ان کاکہنا تھا’’اس میں سے۹۹ء۳۱۵ کروڑ روپے حکومت ہند اور۱۲ء۸۴کروڑ روپے کسانوں نے دیے۔ اب تک ۹۱ء۲۶۹ کروڑ روپے جاری کئے جا چکے ہیں اور۶۷ء۲۵۹ کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں‘‘۔
وزیر زراعت نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جدید تکنیک کے نفاذ سے زعفران کی پیداوار۲۰۰۹۔۲۰۱۰میں ۵۰ء۲کلوگرام فی ہیکٹر سے بڑھ کر۲۰۲۳ میں۴۲ء۴ کلوگرام فی ہیکٹر تک پہنچ گئی ہے۔
ڈار نے کہا’’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر زعفران اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر (آئی آئی کے ایس ٹی سی) کے قیام اور فصل کی کٹائی کے بعد سائنسی طریقوں کو متعارف کرانے سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوا ہے‘‘۔
وزیر زراعت نے کہا کہ ۲۲۔۲۰۲۱ میں زعفران کی قیمت۸۰ ہزار روپے فی کلو سے بڑھ کر ۲ لاکھ ۲۰ہزار روپے فی کلو ہوگئی جبکہ زعفران کی برآمدگی۲۲ گرام فی کلو سے بہتر ہو کر۲۸ گرام فی کلو ہوگئی جس سے مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔
برآمدات اور آمدنی کے رجحانات کے بارے میں ڈار نے کہا کہ زعفران کی پیداوار ۲۰۲۲ میں۸۷ء۱۴میٹرک ٹن بڑھ کر ۲۰۲۳ میں ۹۴ء۱۴ میٹرک ٹن ہوگئی ہے جبکہ پیداوار کی مالیت۲۰۲۳ میں ۳۳ء۲۹۱ کروڑ روپے رہی جو ۲۰۲۲ میں۲۸ء۲۶۱ کروڑ روپے تھی۔
سیاسی پارٹیوں کے مختلف ارکان نے آگے کی کارروائی اور زعفران کی کاشت کے رقبے میں اضافے کے بارے میں ضمنی سوالات اٹھائے۔
بی جے پی کے سنیل شرما نے جواب میں بے ضابطگیوں کا الزام لگایا اور وزیر سے اس کو درست کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ ممبروں نے مشن پروگرام پر اخراجات کی تحقیقات کا الزام لگایا۔
اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے ارکان کے تحفظات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مداخلت کی۔
وزیر زراعت نے ضمنی سوالوں کے جواب میں مزید کہا کہ آئی آئی کے ایس ٹی سی میں جدید پروسیسنگ کی وجہ سے زعفرانی رنگ کا معیار بھی۸ فیصد (روایتی خشکی) سے بڑھ کر۱۶ فیصد (سائنسی خشکی) ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مڈل مین کو ختم کرنے اور منصفانہ قیمتوں کو یقینی بنانے کیلئے ، حکومت نے ای نیلامی کا نظام متعارف کرایا۔
ڈار نے مزید کہا’’اس سے شفاف لین دین ممکن ہوا ہے، جس سے پورے ہندوستان میں زعفران کے کاشتکاروں کیلئے مناسب فارم گیٹ قیمتوں کو یقینی بنایا گیا ہے‘‘۔
ان کامیابیوں کے باوجود وزیر نے آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں خلا کو تسلیم کیا۔
زعفران سے متعلق قومی مشن نے ۱۲۴؍اجتماعی بورویل تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جن میں سے ہر ایک ۳۰ہیکٹر رقبے پر کام کر رہا تھا، تاکہ ۳۶۶۵ ہیکٹر زعفران کے کھیتوں کے لیے چھڑکاؤ آبپاشی فراہم کی جا سکے۔
ایک اور چیلنج بور ویلوں کی بار بار آپریشنل لاگت ہے، جسے کسان برداشت کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ان کاکہنا تھا’’بہت سے کسانوں کو دیکھ بھال کے اخراجات بہت زیادہ لگتے ہیں، جس کی وجہ سے آبپاشی کی مکمل کوریج میں مزید تاخیر ہوتی ہے‘‘۔
وزیر نے رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور زمین پر قبضہ کرنے والوں سے زعفران کی کاشت کو لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی۔
ڈار نے کہا’’اسپرنکل آبپاشی کے نظام اور بور ویلوں کو نقصان پہنچنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ تجاوزات کے بارے میں ریونیو حکام کے پاس شکایات درج کرائی گئی ہیں‘‘۔
ایک سرکاری کمیٹی نے پایا کہ ۷۷ بور ویل غیر فعال ہیں، جبکہ سرینگر اور بڈگام میں صرف آٹھ بور ویل کام کر رہے ہیں۔
ان رکاوٹوں کے باوجود ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ زعفران سے متعلق قومی مشن نے اپنے زیادہ تر مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔انہوں نے کہا’’چیلنجز بدستور موجود ہیں، خاص طور پر آبپاشی میں، ہم نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ حکومت ان خلا کو دور کرنے کیلئے پرعزم ہے‘‘۔
پالیسی فیصلوں میں کسانوں کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے حکومت نے زعفران کے کاشتکاروں، تاجروں اور سول سوسائٹی کے ممبروں کی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ ان کے خیالات کو شامل کیا جاسکے۔
وزیر زراعت نے کہا’’زعفران مشن کی کامیابی کا انحصار کسانوں کی مسلسل مصروفیت، آبپاشی کے بہتر نظام اور زمین ی تجاوزات سے تحفظ پر ہے۔‘‘