نئی دہلی/۱۵مارچ
اسکولوں میں حجاب پہننے پر روک جاری رکھنے کے کرناٹک ہائی کورٹ کے منگل کے فیصلے کے کچھ گھنٹے بعد اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
نِبا ناز نے ہائی کورٹ کے فیصلے کوچیلنج کرنے کیلئے وکیل انس تنویر کے ذریعہ سے ایک عرضی کے ذریعہ سپریم کورٹ کا رخ کیا ۔
عرضی گزاروں نے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ ۱۹۸۳؍اور اس کے تحت بنائے گئے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی عرضی میں دعوی کیا ہے کہ طلبہ کیلئے کسی بھی طرح سے لازمی وردی کا التزام نہیں ہے ۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا’’حجا ب پہننا اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے ۔وردی کا تعین آئینی ہے اور طلبہ اس پر واعتراض نہیں کر سکتے ‘‘۔
عدالت میں دائر عرضی میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت کے ذریعہ پاس پانچ فروری۲۰۲۲کے حکم کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
عرضی میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ ہدایت ’’مذہبی اقلیتوں اور خصوصی طورپر اسلامی عقیدت کے حجاب پہننے والی مسلم خواتین پیروکاروں کی تضحیک کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے ارادے سے جاری کی گئی تھی جس کا کوئی وجود نہیں ہے ‘‘۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حجاب پہننے کا حق آئین کے آرٹیکل۲۵کے تحت ضمیر کے حق کے تحت محفوظ ہے ۔
دریں اثناکرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف مسلم پرسنل لابورڈ، جمعیۃ علمائے ہند، سیاسی رہنمااسد الدین اویسی نے شدیدردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کی مذمت کی جس میں حجاب کو اسلام کا غیر ضروری جز قرار دیتے ہوئے تعلیمی اداروں کے کلاس روم میں ممنوع قرار دیا گیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے قومی صدر اور لوک سبھا رکن اسد الدین اویسی نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ عرضی گذار ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے ۔ انہوں نے فیصلے کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اپنے فکر و نظر کے کئی وجوہات بتلائیں’۔انہوں نے کہا کہ فیصلے نے ‘مذہب، ثقافت اور اظہار خیال کی آزادی کے بنیادی حقوق’ کو ختم کر دیا ہے ۔
اویسی نے کہا،‘ایک مذہبی مسلمان کا حجاب’ ایک طرح کی عبادت ہے ۔ لازمی مذہبی معاملہ امتحان کو کسوٹی پر رکھنے کا وقت آ گیا ہے ۔ ایک مذہبی شخص کے لیے سب کچھ ضروری ہے اور لا مذہبیت (دہریت) کے لیے کچھ لازم نہیں ہے ۔ ایک مذہبی ہندو برہمن کے لیے ‘جینیو’ لازمی ہے مگر ایک غیر برہمن کے لیے لازم نہیں ہے ۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ جج لازمییت کا تعین کر سکتے ہیں’۔
اویسی نے کہا’’ایک ہی مذہب کے دوسرے لوگوں کو لازمیت کا تعین کرنے کا حق نہیں ہے ۔ یہ ایک شخص اور رب کے درمیان کا معاملہ ہے ۔ ریاست کو ان مذہبی حقوق میں دخل دینے کی اجازت صرف تب ہونی چاہیے ، جب یہ کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچاتے ہوں۔ حجاب کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا‘‘۔ اویسی نے کہا کہ حجاب پر پابندی لگانا مسلم خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ انھیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے سلسلے میں جو فیصلہ دیاہے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے مغائر ہے اور جلد ہی بورڈ اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گااور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کریگا۔
یہ بات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولا نا خالد سیف اللہ رحمانی نے آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کہی ہے ۔
رحمانی نے کہاکہ عدالت کا یہ فیصلہ دستور کی دفعہ ۵۱کے بھی خلاف ہے جو مذہب، نسل،ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہے ۔ جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے ، اس لحاظ سے حجاب ایک لازمی حکم ہے اگر کوئی اس حکم پر عمل نہ کرے تو وہ اسلام کے دائرے سے نہیں نکلتا ہے لیکن وہ گناہگار ہوتا ہے اس وجہ سے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حکم نہیں ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ حجاب سے متعلق فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے اس کو ملک اور مسلمانوں کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔انہوں نے یہ ردعمل آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ اس سے مذہبی آزادی پر براہ راست اثرپڑے گا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی سماج صرف قانونی باریکیوں سے نہیں چلتا بلکہ سماجی و روایتی طور پر اس کا قابل قبول ہونا بھی ضروری ہے ۔انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوں گے ، بالخصوص مسلم بچیوں کی تعلیم پر اثر پڑے گا اوروہ موجودہ پیدا کردہ صورت حال میں اپنی آزادی اور اعتماد کھودیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی بہت ہی قدیم روایت اور تہذیب ہے ،بالخصو ص مسلم خواتین کے عقیدے و تصور میں صدیوں سے پردہ اور حیا کی ضرورت و اہمیت ثبت ہے ، اسے صرف عدالت کے فیصلے سے مٹایا نہیں جاسکتا۔