جموںوکشمیر اسمبلی کا بجٹ اجلاس لیفٹیننٹ گورنر منوج سہنا کے خطبے سے شروع ہوا ۔ زائد از ایک دہائی کا گہن ٹل گیا اور اب سیاسی، انتظامی اور سکیورٹی سیٹ اپ اور لینڈ سکیپ کے تناظرمیں حقیقی معنوں میں ایک نئے باب کا ایک نیا عنوان رقم کردیاگیا۔ جمہوریت کی یہی خوبی ہے جس خوبی کو چھین لیاگیا تھا لیکن عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں اس کو واپس حاصل کرلیاگیا ہے ۔ اگر چہ ابھی اس مخصوص سمت میں بہت سے مراحل طے کرنے ہوں گے جس میں ریاستی درجہ کی بحالی اور جموںوکشمیر میںحکومتی اور انتظامی شعبوں میں دہرے نظام کا خاتمہ اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
گورنر کے خطبے میں حکومت کے عزائم ، ارادوں اور منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں تمام سٹیک ہولڈروں کے ساتھ متواتر مشاورت، کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی، ترقیاتی عمل میں ہر خطے کی یکسانیت ، توانائی کے شعبے میں بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر، لوگوںسے کئے گئے وعدوں کی تکمیل، امن اور سکیورٹی کے حوالہ سے چوکسی کے ساتھ ساتھ عوام کی دیرینہ خواہشات اور ضرورتوں کی تکمیل کی سمت میں ٹھوس اور موثر اقدامات کی یقین دہانی اور عزائم کا اظہار گونا اطمینان کی نوید ہے ۔
ْ لیکن کہنا آسان ہے اور عمل آوری کی کسوٹی پر اُترنا اتنا آسان نہیں۔ جن اشوز کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی تکمیل آنکھ بندکرکے یونہی آن واحد میں ممکن نہیں۔ وعدوں کی تکمیل کے لئے وسائل اور ذرائع کی دستیابی بُنیادی شرط ہے ۔ کیا حکومت کے پاس ان وعدوں اور اعلانات کی تکمیل کیلئے اتنے وسائل دستیاب ہیں کہ وہ معاشرے اور آبادی کے ہر طبقے کے اُمیدوں اور تمنائوں کی کسوٹیوں پر اپنے اگلے بجٹ سیشن تک پورا اُتر پائے،یہ ممکن نہیں، اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے مرکزی سرکار کی آشیرواد ، تعاون اور عوام نے حکومت کو جو منڈیٹ تفویض کیا ہے اس کا احترام ناگزیر ہے،ا س کے بغیر حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائے گی۔
اِدھر اپوزیشن کے بھی اپنے اہداف ہیں، سیاسی ایجنڈا ہیں،کچھ کے ذاتی اہداف بھی ہیں اور عزائم بھی ، یہ کہنا کہ عوام کے وسیع تر مفادات میں اور سب سے بڑھ کر جموںوکشمیر کی علاقائی سالمیت، یکجہتی اور رواداری کے جو کچھ بھی تقاضے ہیں ان کے پیش نظر اپوزیشن اپنی انانیت اورا یجنڈا سے پیچھے ہٹے گی یہ خواب خیالی ہے اور دیوانے کی بڑ کے مترادف بھی ۔ باالخصوص اس مخصوص تاریخی پس منظرمیں کہ نیشنل کانفرنس کا وجود بحیثیت مجموعی ان تمام سیاسی قوتوں جو فی الوقت اپوزیشن بینچوں پر جلوہ گر نظرآرہی ہیں کیلئے آج کا کھٹکتا نہیں بلکہ اس اپوزیشن اور ناپسندیدگی کی کچھ تاریخی وجوہات ہیں۔
ان مخالفین میںسے کچھ وہ بھی ہیں جو الحاق کے وقت اس دُنیا میں آئے بھی نہ تھے لیکن اُس دور کے حوالہ سے تاریخی واقعات ، ان واقعات کے اہم کرداروں کے رول اور زمینی سطح پر کیا کچھ حقائق تھے جن سے وہ گذررہے تھے اورانہی معاملات اور مخصوص واقعات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کا کردار بھی اداکرتے رہے لیکن آج ۷۷؍ سال گذرنے کے بعد حادثاتی طور پر سیاست کے چوغے پہنتے ہو ئے یہ قوتیں اور عناصر آج کی تاریخ میں ان فیصلوں کو غلط قرار دے رہے ہیں یا سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کرکے درحقیقت اپنے منہ پر سیاہی مل رہے ہیں۔
کوئی دہلی میں بیٹھا اعلان کررہاہے کہ بجٹ اجلاس کے دوران حکومت کو ہر معاملے میں گھیرے میں لیا جاتارہے گا، کوئی اعلان کررہا ہے کہ ہمارے ممبران اجلاس کے دوران پہلی ترجیح کے طور پر ۱۳؍ جولائی کی سرکاری تعطیل کو یقینی بنانے کی سمت میں قرار داد پیش کرکے منظور کرائے، تو کوئی جموں کے حوالہ سے ’’شیڈو حکومت‘‘ کی تشکیل کا اعلان کرکے خود کو بھی اور اپنی ملکی سطح کی پارٹی کو بھی آئین سے ماورا تصور کرکے اپنی آمریت یا آمرانہ ذہنیت کا دبدبہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بچگانہ حرکتیں ہیں، طفلانہ سیاست ہے جبکہ عوام کو درپیش سنگین نوعیت کے معاملات کے حوالہ سے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر چہ یہ سارے اشوز اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ عوام جن اشوز کے بوجھ تلے ایک عرصے سے دبے اور کچلے جارہے ہیں ، وہ گھٹن کے ماحول میں زندگی گذاررہے ہیں، سڑکوں پر سکون تونظرآرہاہے لیکن گھروں کی چاردیواریں سکون سے محروم ہیں، کئی شعبوں کے تعلق سے ناا نصافیوں کی ننگی تلواریں لوگوں کی گردنوں پر لٹکی ہیں ان تلواروں کو ہٹانے اور سنگین نوعیت کے معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ، کسی مخصوص یا تاریخ کے حوالہ سے کسی دن کو تعطیل منانے یا دوسرے نعروں کی چیخ وپکار کے سہارے نہ پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا پڑ سکتا ہے اور نہ ہی گھروں کا کھوتا جارہا ہے اور چھینا جارہا سکون واپس حاصل کیاجاسکتا ہے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن معاملات کو صرف اور صرف اپنے سیاسی اہداف اور اپنے مخصوص نظریات کے حامل سیاسی مشن اور سیاسی ایجنڈا کی عینکوں سے دیکھنے اور ٹریٹ کرنے کی خوگر بن چکی ہے جبکہ لوگوں کا ایک بڑا سادہ لوح طبقہ ان سیاست کا روں کے ان نعروں جن کی حیثیت گڈھے مردوں سے کچھ کم نہیں، سے گمراہ ہورہاہے۔اسی دوران ایک اپوزیشن رکن اسمبلی کا گورنر کے خطبے کے دوران کھڑے ہوکر کٹوعہ اور بارہمولہ میں دوہلاکتوں کے واقعات کو لے کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا اپوزیشن کے انہی مخصوص سیاسی ایجنڈا کا محض ایک اور تسلسل ہے۔ کیا ممبر موصوف گورنر کی تقریر صبروتحمل کے ساتھ گوش گذار نہیں کرسکتے تھے اورجب گورنر کے خطبے پر شکریہ کی تحریک پر اپنے خیالات اور مطالبات کو اور زیادہ بہتر اور موثر انداز میں پیش کرسکتے تھے لیکن غالباً وہ اپنے بھائی کی ہنگامہ آرائی پر مبنی سیاسی روش کو آگے بڑھانے کی روایت سے انحراف نہیں رکھنا چاہتے لہٰذا ضروری سمجھا کہ کیمرہ کا پہلا رُخ اسی کی طرف ہوجائے۔
ہمارا یقین ہے اور جیسا کہ پہلے ہی اسی کالم میں واضح کرچکے ہیں کہ اجلاس ہنگامہ آرا ہوگا اور حکومت کو زبردست چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ باالخصوص وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو ہرممکن طریقے سے نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیںدیا جائیگا۔ اس دوران کتنے لوگ ایوان سے باہر جاتے نظرآتے رہینگے اور اجلاسوں کی کارروائیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے کتنے اراکین ایوان میں موجود نظرآتے رہینگے اُن سب پر توجہ مرکوز رہیگی ۔البتہ اس حوالہ سے ایوان میںکانگریس کے ارکان کا بحیثیت مجموعی رول بھی توجہ کا مرکز رہے گا۔