۲۷؍فروری ۲۰۲۵ء ، محض چند گھنٹوں کی بارشوں نے سرینگر جموں واحد قومی شاہراہ کو ٹریفک کیلئے بند کردیا ۔ تقریباً ۴۰؍ کلومیٹر طویل راستے پر جگہ جگہ تودے کھسک کرآتے رہے ، ریتلی ملبہ ٹنوں وزنی زمین پر آکر شاہراہ کے ان مخصوص حصوں کو ٹریفک کیلئے ناقابل عبور ومرور بنادیا، ماناکہ بارش اور برفباری انسان کے ہاتھ اور کنٹرول میں نہیںہے لیکن یہی انسانی ہاتھ اور وسائل پر مکمل کنٹرول کے ہوتے جب یہ بلند وبانگ دعویٰ سالہاسال سے کیا جاتا ہو کہ شاہراہ کو ۷x۲۴ ٹریفک کے عبور ومرور کے قابل بنایاگیا ہے تو معمولی برفباری اور بارش ان سارے دعوئوں کو نہ صرف پول کھول کے رکھدیتی ہے بلکہ متعلقہ وزارتوں اور حکام کے دعوئوں کو بھی جھوٹ اور کازبیت کے ایک پلندہ کے طور بے نقاب کرتے رکھتے ہیں۔
گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل طور سے دعویٰ کیاجارہا ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ کو ہر موسم اور ہر حالات میں ۷x۲۴ ٹریفک کیلئے قابل عبور ومرور بنایاگیا ہے اور اب کشمیر کا جموں او رملک کے باقی خطو ں سے رابطہ بنائے رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔ لیکن موسم کے تیور بدلتے ہی حکومت کے متعلقہ اداروں کے یہ دعویٰ غلط اور فریب ثابت ہوتے رہے ہیں۔ گذرے برسوں کے دوران اس شاہراہ کو کشادہ بنانے اور چار لینوںکی سطح پر ترقی دیئے جانے کی سمت میں بے شک بہت کچھ کیاگیا، ناقابل اور دشوار گذار مقامات کو نہ صرف کشادہ بنایاگیا بلکہ چھوٹی بڑی ٹنلوں کا ایک وسیع جال بھی تعمیر کیا جاتا رہا، ان اقدامات سے اس مخصوص شاہراہ پر سفر کیلئے نہ صرف آسانیاں پیدا ہوتی رہی بلکہ مسافت بھی کم سے کم سطح پر آتی رہی، جس کا اعتراف اس شاہراہ پر سفر کرنے والے برملا طور سے کررہے ہیں۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے جو انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ جن ٹھیکہ دار فرموں کو شاہراہ کی تعمیر نو اور تجدید کے ٹھیکے الاٹ کردیئے گئے ہیں وہ اب تک قدم قدم پر نااہل اور نابہ کار ثابت ہوتی رہی ہے۔ کئی کئی کلومیٹر طویل تک شاہراہ کی کشادگی کیلئے بیک وقت بلاسٹنگ کرکے ان فرموں نے جہاں خطے کے ماحولیاتی لینڈ سکیپ اور ماحولیاتی توازن کو انتہائی حد تک تہہ وبالا کرکے رکھدیا ہے وہیں بلاسٹنگ کے منفی اثرات شاہراہ پر رواں ٹریفک پر بھی مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ نجی املاک کومسلسل نقصان پہنچ رہا ہے ، مکانوں اور زمینوں میںگہرے شگاف پڑنا اب معمول بن چکا ہے، جنہیں ان نقصانات کے عوض کوئی معاوضہ ادانہیں کیاجارہا ہے جبکہ بلاسٹنگ کے نتیجہ میں مسلسل تودوں کے کھسکنے کا عمل برابر جاری ہے۔ معمولی بارشوں کے ہوتے ہی یہ تودے کھسک کرنیچے آجاتے ہیں جو شاہراہ کو ٹریفک کے عبور ومرور کے ناقابل بنادیتے ہیں۔
یہ ملٹی کروڑ پروجیکٹ ہیں، جن کی لاگت میں طوالت کے پیش نظر ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ اس طوالت کا براہ راست فائدہ متعلقہ فرموں کوہورہاہے لیکن جو نقصان عام راہ گیروں اور کاروباریوں کو ہورہا ہے اس کا تخمینہ نہیں لگایا جارہا ہے۔ شاہراہ کے مختلف پڑائوں پر ٹول ٹیکس وصول کرنے کیلئے ٹول پوسٹ موجود ہیں جو ہر گذرنے والی چھوٹی بڑی گاڑی اور مال بردار ٹرکوں سے بھاری ٹول وصول کررہے ہیں۔ ٹول سے وصول ہورہی اسی بھاری آمدن کو شاہراہ کی کشادگی کے کام پر صرف کیا جارہاہے ۔ اس مخصوص تناظرمیں متعلقہ وزارت کا یہ دعویٰ کہ وزارت شاہراہ کی تعمیر وتجدید میں اپنے وسائل جھونک رہی ہے زمینی حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ جو سرمایہ کاری سڑک کی کشادگی ، ٹنلوں کی تعمیرات اور رکھ رکھائو کے حوالہ سے کی جارہی وہ پیسہ عوام اداکررہے ہیں لیکن عوام کو اس کے عوض جن سہولیات کی توقع ہے وہ سہولیات سالہاسال گذرنے کے باوجود ابھی بھی اس مخصوص شاہراہ پر دستیاب نہیں۔چند ایک مقامات پر بیت الخلاء موجود ہیں لیکن وہ ناقابل استعمال ہیں۔ نہ ان کی مرمت ہورہی ہے اور نہ ہی صحت عامہ اور صحت وصفائی کے بُنیادی تقاضوں کے حوالہ سے دیکھ بھال کو یقینی بنایاجارہاہے۔
اس شاہراہ کے تعلق سے ٹریفک مینجمنٹ کے مروجہ طریقہ کار پر بحث کرنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ایک الگ اشوع ہے جس کا تعلق جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن سے ہے۔ البتہ اس بات پر ضرور اکتفا کریں گے کہ اس شاہراہ کو بہت سارے لوگوںنے اپنے لئے فاضل آمدنی کی وصولی کا ایک اہم ذریعہ بنالیا ہے۔ اس آمدنی کی وصولیابی کو دُنیاوی زبان میں بھتہ خوری کہاجارہاہے۔
بہرحال ملکی سطح پر کئی ایک قومی ورابطہ شاہرائوں کے حوالوں سے عدالتوں کے احکامات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ جہاں سڑک کاکوئی حصہ خستہ حالت میںہے اس حصے کے حوالہ سے ٹول ٹیکس کی شرح میں کمی کرنے کے عدالتی احکامات بھی موجود ہیںجبکہ کچھ شاہراہوں کے بارے میں یہ احکامات بھی اب ریکارڈ پر ہیں کہ اب جبکہ گذرے برسوں کے دوران سفر کرنے والوں سے ٹول ٹیکس کی صورت میں بہت سارا سرمایہ وصول کرلیاگیاہے۔لہٰذا ان شاہرائوں پر سے اب ٹول پلازہ کو ہٹادیناچاہے کیونکہ سڑک پر آئے اخراجات سے کہیں زیادہ حکومت ٹول ٹیکس کی وساطت سے وصول کرچکی ہے۔
لیکن بانہال سے رام بن کے تقریباً ۴۰؍ کلومیٹر شاہراہ پراس کی خستہ حالت کے باوجود پورے حجم کا ٹول وصول کیاجارہاہے۔ کیا مرکزی وزارت متعلقہ یہ وصولی عوام کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہیں سمجھ رہی ہے؟ ایک اور پہلو بھی ہے جس کا تعلق قومی سطح کے گرین ٹریبونل کی اس شاہراہ کے تعلق سے ماحولیات کے بگڑتے توازن اور تیزی سے بگڑ رہے لینڈ سکیپ کے تئیں معذرت خواہانہ ، نظرانداز کرنے یا نظریں چرانے کے دانستہ عمل سے ہے ۔ نہ صرف پہاڑوں کی بلاسٹنگ کرکے اس سارے خطے کو مستقبل کے ممکنہ اندیشہ ہائے اور نتائج کے حوالہ سے ممکنہ خطرات کوقومی گرین ٹریبونل نظرانداز کرتاجارہا ہے بلکہ بلاسٹنگ اور تودوں کے گرآنے کے بعد جو ملبہ سڑک پر آرہا ہے اس سارے ملبہ کو دامن میں بہہ رہے دریائے کی نذر کیاجارہاہے ۔ یہ عمل مسلسل اب کئی برسوں سے جاری ہے۔
اس خطے میں موجود جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن کے جوادارے موجود ہیں وہ بھی اس تباہی کو روکنے میں کوئی کردار ادانہیں کررہے ہیں بلکہ خاموش تماشائی کا رول ادا کرکے وہ درحقیقت اس تباہی و ماحولیات کی بربادی میں معاونت کا ہی رول اداکررہے ہیں۔ جو سب سے زیادہ شرمناک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔