عروج و زوال کوئی نئی بات نہیں ہے …عروج و زوال زندگی کا ایک حصہ ہے … کبھی عروج تو کبھی روزل۔عروج مستقل ہے اور نہ زوال ‘یہ آنی جانی چیزیں ہیں… ایسی چیزیں جن کا ہر ایک فرد کو سامنا کرنا پڑتا ہے… اپنے رشید شیخ صاحب کو بھی ان سے سامنا ہوا … لیکن… لیکن ان کے ساتھ ایک بات جو ہو ئی وہ یہ کہ ان کا عروج جتنی تیزی سے ہوا ‘ زوال بھی اسی رفتار سے آیا… کہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ جناب لوک سبھا الیکشن میں گورے گورے بانکے چھورے عمرعبداللہ کو پچھاڑ دیں گے… لیکن انہوں نے عمرعبداللہ کو ہرایا… ہرایا کیا ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا… یہ رشید شیخ کا عروج تھا … عروج کے اسی تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر یہ جناب جیل سے باہر آئے یا انہیں جیل سے باہر لایا گیا اور… اور اسمبلی الیکشن میں اپنی پارٹی کی قیادت کی … اس امید اور یقین کے ساتھ کہ یہ اسمبلی الیکشن میں بھی لوک سبھا الیکشن جیسی کار کردگی دہرائیں گے ‘ لیکن صاحب ایسا نہیں ہوا … لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا نہیں ہوا … ایسا نہیں ہونا تھا اور انہیں شکست فاش کا سامناکرنا پڑا… یہ ان کا زوال تھا … جو عروج کی ہی طرح بڑی تیزی سے آیا … وہ دن اور آج کا دن … رشید شیخ جیل میں … تہاڑ جیل میں ضمانت کیلئے دہائی دے رہے ہیں ‘ لیکن کوئی ان کی بات کو سن نہیں رہا ہے… وہ بھی نہیں سن رہے ہیں‘ جنہوں نے انہیں اسمبلی الیکشن کے وقت جیل سے بیل کرائی تھی… جیل سے باہر لایا تھا … اس امید کے ساتھ لایا تھا کہ یہ ان کے کام کی چیز ہے… یا کام کی چیز ثابت ہوں گے… لیکن… لیکن رشید شیخ ناچیز ہی ثابت ہو ئے اور تب سے رشید شیخ کے کام کوئی نہیں آرہا ہے … کہاں ہفتوں کی ہول سیل ضمانت اور کہاں اب انہیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھی ضمانت نہیں مل رہی ہے اور… اور اس لئے نہیں مل رہی ہے کیوں کہ بڑے بزرگوں کاکہنا ہے کہ… کہ جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی رہنا چاہیے اور… اور لوک سبھا الیکشن جیت کر رشید شیخ جوش میں آگئے اور … اور بد قسمتی سے ہوش کھو بیٹھے… سو فیصد کھو بیٹھے … اب جب کہ ان کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہوگا تو… تو امید ہے کہ انہیں ہوش آجائیگا ‘ ان کے ہوش ٹھکانے آئیں گے ۔ ہے نا؟