بڈگام اسمبلی حلقے کا ضمنی چنائو اب کسی بھی وقت متوقع ہے ۔ عمرعبداللہ اس اسمبلی حلقے سے بھی منتخب ہوئے تھے لیکن گاندربل حلقے کو اپنے لئے مخصوص کرکے اس حلقے سے مستعفی ہوئے۔یہ ضمنی چنائو جب بھی ہوگادلچسپی، تجسس اور توجہ کا مرکز رہے گا کیونکہ اپوزیشن پی ڈی پی کی سر توڑ کوشش ہوگی کہ اس ضمنی چنائو کو اپنے کھاتے میں کرلے، نیشنل کانفرنس کیلئے اس حلقے سے ایک اور کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے وقار کی حیثیت رکھتا ہے، عین ممکن یہ بھی ہے کہ کچھ اور پارٹیاں بھی اس حلقے سے قسمت ازمائی کیلئے اپنے اُمیدوار کھڑا کرے۔ تاہم یہ بعد کی بات ہے ۔
توجہ اس امر پر ہے کہ نیشنل کانفرنس اس مخصوص حلقے سے الیکشن لڑنے کیلئے کس کو میدان میں اُتارتی ہے۔ ابتدائی اطلاعات ہیں کہ پارٹی ناصر اسلم وانی اور عمرعبداللہ کے ایک بیٹے کو پارٹی میدان میں اُتارنے کی سوچ رکھتی ہے لیکن ان دونوں کے حوالہ سے کچھ جوکھم محسوس کئے جارہے ہیں۔ا سمبلی حلقے سے ووٹران کے ساتھ ساتھ پارٹی کیڈر کا ایک حصہ کسی بھی بیرونی اُمیدوار کو مسلط کرنے کی پارٹی کی کسی بھی سوچ کی مخالفت کررہا ہے ۔ اگر چہ کھلے طور سے اس کا اظہار نہیں کیا جارہاہے لیکن اندر ہی اندر سے یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ پارٹی کیڈر کا استدلال یہ ہے کہ حلقے میں پارٹی سے وابستہ بہت سارے افراد الیکشن لڑنے کیلئے پارٹی کے منڈیٹ کے اہل بھی ہیں اور مستحق بھی، لیکن پارٹی کیڈر پر بیرونی اُمیدوار کو مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش اگر کی بھی جاتی ہے تو یہ ضروری نہیں کہ اس فیصلہ کی کھل کر مخالفت کی جائے البتہ رائے دہی پر اس سوچ کے اثرات کسی نہ کسی حوالہ سے مرتب ہوسکتے ہیں۔
پارٹی کو اس علاقے کے ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ کی حمایت اور تائید بھی بڑے پیمانے پر درکار ہوگی،لیکن فی الوقت پارٹی اور روح اللہ کے درمیان ظاہر ی اور باطنی دونوں اعتبار سے دوریاں ہیں، دونوں کے درمیان بڑھتے ان فاصلوں کو پاٹنے کی اندرونی سطح پر کوشیش جاری ہیں لیکن فی الوقت تک اس حوالہ سے کوئی خاص پیش رفت حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس بات کو محسوس کیاجارہا ہے کہ آغا روح اللہ کی ناراضگی اگر برقرار رہی تو اس کا اثر الیکشن نتائج پر بھی مرتب ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر پارٹی روح اللہ سمیت مقامی لیڈر شپ کو اعتماد میں لے کر کسی مقامی پارٹی ورکر کے حق میں منڈیٹ منظور کرتی ہے تو خدشات سے عبارت ممکنہ روڈ میپ تبدیل ہوسکتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ناصر اسلم وانی حالیہ الیکشن میں اپنے آبائی حلقے سے کامیاب نہیں ہوسکے اگر چہ ماضی میں وہ امیرا کدل حلقہ سے منتخب ہوئے تھے لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ موجودہ منظرنامے کے ہوتے انہیں اگر منڈیٹ دیا بھی جاتا ہے تو وہ جیت کرلوٹیں گے؟ کیونکہ انہیں باہرکااُمیدوار ہی سمجھا جارہا ہے اور مقامی پارٹی کیڈر سے وابستہ بہت کم ان کے حق میں میدان میں کام کرتے نظرآئیں گے۔ جہاں تک عمر کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں کہ وہ اپنے بیٹے کو میدان میں اُتار نا چاہتے ہیں تو ان کے بارے میں کچھ حلقوں میںیہ کہنا شروع ہوگیا ہے کہ خاندان کی چوتھی نسل کو میدان میں اُتارنے کی شروعات ہورہی ہے۔ جبکہ ذاتی طور سے عمر کے کسی بیٹے کی کشمیرکی سیاست کے حوالہ سے فی الوقت تک کوئی کردار نہیں ہے ماسوائے اس بات کے کہ انہوںنے حالیہ الیکشن میں کچھ پارٹی ریلیوں میں شرکت کی جبکہ آغا روح اللہ کی قیادت میں ریزرویشن کے خلاف بچوں کے احتجاج میں تھوڑی دیر کے لئے ’نمائشی‘ شرکت بھی کی، جس آغا روح اللہ کی شرکت کو پارٹی کے ایک ممبراسمبلی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف وزری، دُشمن پارٹی کے کچھ لیڈر وں کے ساتھ احتجاج میں شرکت وغیرہ قرار دے کر آغاروح اللہ کے خلاف پارٹی سطح پر مخالفانہ محاذ کھڑا کیا لیکن اسی احتجاجی ریلی میں عمر کے بیٹے کی شرکت پر کوئی لب کشائی نہیں کی۔
اپوزیشن پی ڈی پی اس ضمنی چنائو کو سنجیدگی سے لے گی اگر پارٹی نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیاکیونکہ اس حلقے سے اس کے اُمیدوار نے حالیہ الیکشن میںاچھی تعداد میں ووٹ حاصل کرلئے تھے، اب کی بار جبکہ حکمران پارٹی کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ایسے میں پی ڈی پی اس کا بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریگی۔ جبکہ اس کا متوقع اُمیدوار ظاہر ہے اہل تشیعہ سے ہی ہوگا، جن کا حلقے میں رائے دہندگان کا شرح تناسب ۳۵؍ فیصد اور ۴۰؍ فیصد کے درمیان خیال کیاجارہاہے۔
اگر نیشنل کانفرنس نے اس حلقے سے کسی مقامی اُمیدوار کو میدان میں نہیں اُتارا تو خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اُس صورت میں اہل تشیعہ کاووٹ تقسیم ہونے کی بجائے متحد ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو یہ حکمران پارٹی کے لئے حالیہ بھاری عوامی منڈیٹ میں پہلا بڑا شگاف تصور کیا جائے گا۔ جبکہ پارٹی ایسا ہر گز نہیں چاہئے گی کیونکہ اس کی کوشش ہر صورت میں یہی رہیگی کہ اسمبلی میں اس کی بھاری اکثریت کا دبدبہ بنا رہے اور اُس دبدبہ میںکوئی دراڑ سرائیت نہ کرپائے۔
سنجیدہ فکر عوامی حلقوں میںاس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیاجارہا ہے کہ حالیہ اسمبلی الیکشن کے وقت جو ماحول تھا وہ کچھ اور تقاضہ کررہاتھا لیکن اب اُس منظرنامہ میں تبدیلی ہوئی ہے باالخصوص اس حوالہ سے کہ پارٹی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے اور جن یقین دہانیوں کو زبان دی تھی پارٹی کی قیادت برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک ان کا ایفاء نہیں کرسکی ہے بلکہ کئی معاملات میں ذومعنی بیانات کا سہارا لے کر یوٹرن لینے کی کوششوں کو بھی محسوس کیاجارہا ہے۔
پھر کشمیر نشین اپوزیشن کے ساتھ ساتھ جموںنشین اپوزیشن بھی حکمران پارٹی پر مسلسل حملوں اور نشانہ بنانے کی اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ کشمیر نشین اپوزیشن کشمیر مخصوص معاملات کے حوالہ سے اور جموں نشین اپوزیشن جموں مخصوص معاملات کے حوالہ سے حکمران پارٹی پر تنقید اور مخالفت کے تیر برسارہی ہے۔ یہاں تک کہ اب جموں نشین اپویشن کھل کر ریاستی درجہ کی بحالی کے نیشنل کانفرنس کے مطالبے کی مخالفت میںمیدان میں اُترآئی ہے اور اطلاعات کے مطابق مرکز پر دبائو ڈال رہی ہے کہ ابھی ریاستی درجہ بحال نہ کیاجائے بلکہ اپنے اس دبائو کے دفاع میںدبے الفاظ میںکشمیر کے رائے دہندگان کی کردارکشی کرکے ان کے حالیہ اسمبلی الیکشن میںبھاری منڈیٹ تفویض کرنے کے حوالہ سے اس کی بھی توہین کی جارہی ہے۔ جموں اپوزیشن کی طرف سے ریاستی درجہ کی بحالی کی مخالفت کے تعلق سے سرگرمیوں کو نیشنل کانفرنس کی صوبائی (جموں) لیڈر شپ کی طرف سے بھی اب تصدیق سامنے آئی ہے۔ یہ اشوز بھی بڈگام اسمبلی ضمنی الیکشن پر اثرانداز ہونے کی گنجائش رکھتے ہیں۔
۔