تحریر:ہارون رشید شاہ
لگتا ہے کہ اپنے وزیراعظم‘اعلیٰ حضرت شریمان نرنیدرا بھائی مودی جی نے بالآخر پپو کو لیڈر تسلیم کرہی لیا ہے… اور اگر ایسا ہے تو یہ راہل گاندھی ‘المعروف پپو کیلئے ایک بڑی حصولیابی ہے‘ کامیابی ہے … بڑی کامیابی۔ وہ کیا ہے کہ مودی جی نے گزشتہ ۸ برسوں میں ایک بار بھی ایسا کوئی عندیہ یا اشارہ دیا کہ وہ پپو کو ایک سنجیدہ لیڈر تو دور کی بات ہے‘ایک سیاستدان سمجھتے ہیں… لیکن اب شاید انہوں نے اپنا من بدل لیا ہے… اپنے فیصلے پرنظر ثانی کی ہے اور بالآخرپپو کو ایک سیاستدان‘ ایک لیڈر اور شاید اپنا حریف بھی مان لیا ہے … کہ خبر ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے پپو سے مسلسل دوسرے دن بھی پوچھ تاچھ کی ہے… انہیں اپنے صدر دفتر پر بلا کر ان کی خاطر تواضع کی ہے اور… اور یقین کیجئے کہ ای ڈی کا بلاوا ہر ایک کو نہیں آتا ہے… یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ۔ بلاوے کیلئے ضروری ہے… وزیر اعظم ہند کی نظر کرم ‘ نگاہ کرم ضروری ہے اور… اورپپو پر مودی جی نے نظر کرم ڈال دی ہے … یقین کیجئے کہ اگر ایسا نہیں ہو تا تو… تو ای ڈی اور پپو کا آپس میں کوئی تعلق ‘ کوئی کام نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ۔ ای ڈی کے پاس پپو کی خاطر تواضع کرنے سے بھی بڑے اور بہت سارے کام ہیں اوروہ یقینا ان کاموں میں مصروف رہتی ہے… لیکن اگر اس نے اپنے یہ تمام ضروری کام کو ایک طرف کرکے پپو کو بلاوا بھجوا دیا … وہ بھی ایک نہیں بلکہ دو دو دن تو صاحب یقین کیجئے پپو کے دن پھر گئے ہیں‘ بدل گئے ہیں … ان کی محنت رنگ لائی ہے‘ مودی جی کیخلاف انہوں نے گزشتہ ۸ برسوں سے جو کچھ بھی کہا ‘ جو کچھ بھی فرما یا ‘ جو کچھ بھی سنایا … ہمیں اور آپ کو سنایا … وہ سب رائیگان نہیںہوا ہے‘ ضا ئع نہیں ہوا ہے … پپو کی محنت رنگ لائی ہے اور… اور مودی جی نے انہیں ایک لیڈر کے طور پر تسلیم کیا ہے… یہ پپو کے اب تک کے سیاسی کیریئر کی سب سے بڑی کامیابی ہے … جس پر اگر پپو فخر کرنا چاہیں تو… تو کر سکتے ہیں کیونکہ پہلے پہل مودی جی ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے اور …اور آج ان کی پپو کے بارے میں کیا سوچ ہے…اگر یہ کسی بات کی چغلی کھا رہی ہے تو… تو صرف اس ایک بات کی کہ پپو پاس ہو گیا… سیاست میں بھی پاس ہو گیا ۔ ہے نا؟