جموں//
سابق وزیر اعلیٰ اور حکمران جماعت‘نیشنل کانفرنس کے صدر‘ فاروق عبداللہ نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ کٹرا،سنگلدان ٹرین سروس میں کچھ ماہ کی تاخیر کا امکان ہے اور سیاحت کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی اپریل میں کام شروع ہوجائے گا۔
پارٹی کی ایک تقریب کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ وہ ۲۵جنوری کو ٹرین کے ذریعے سرینگر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق نے کہا’’میں نے سنا ہے کہ کچھ نامکمل کاموں کی وجہ سے (کشمیر جانے والی) ٹرین کو دو مہینے کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کاموں پر توجہ دی جا رہی ہے اور وہ اپریل میں سیاحت کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی ٹرین شروع کریں گے‘‘۔
گزشتہ سال دسمبر میں وزارت ریلوے نے اودھم پور،سرینگر،بارہمولہ ریلوے لنک (یو ایس بی آر ایل) پروجیکٹ کی تکمیل کا اعلان کیا تھا، یہ کام ۱۹۹۷ میں کشمیر کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے کیلئے شروع کیا گیا تھا۔
ریلوے حکام نے کٹرا سرینگر ٹریک سمیت مختلف حصوں پر کئی آزمائشی رن کیے اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران ناردرن سرکل کے کمشنر آف ریلوے سیفٹی دنیش چند دیشوال کی جانب سے قانونی معائنہ کیا گیا، جس سے سروس کے جلد آپریشنل ہونے کے امکانات روشن ہوگئے۔
کانگریس کے ایک رہنما کی جانب سے مبینہ طور پر حکومت کے کام کاج پر تنقید کے بارے میں پوچھے جانے پر فاروق عبداللہ نے کہا کہ حکومت جانتی ہے کہ کیا کرنا ہے۔’’حکومت اپنی مرضی کے مطابق کام کرے گی۔ کوئی بھی حکومت کو شرائط مسلط نہیں کر سکتا‘‘۔
پی ڈی پی کے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہ نیشنل کانفرنس حکومت نے آرٹیکل ۳۷۰ سے ریاست کا درجہ حاصل کرلیا ہے ،فاروق عبداللہ نے کہا کہ حریف پارٹی کو ان کی پارٹی کے خلاف کوئی الزام لگانے سے پہلے خود جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’انہیں (پی ڈی پی کو) بتائیں کہ وہ وہی ہیں جو آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے ذمہ دار ہیں۔ ہم نے مفتی محمد سعید (سابق وزیر اعلی اور پی ڈی پی کے بانی) سے کہا تھا کہ وہ حکومت سازی کیلئے بی جے پی میں شامل نہ ہوں۔ ہمارے، کانگریس اور دیگر پارٹیوں کی بار بار درخواست وں کے باوجود وہ آگے بڑھے‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ کب بحال کیا گیا، انہوں نے کہا’’جب یہ اللہ تعالیٰ کو قابل قبول ہوگا‘‘۔
۱۹جنوری کو جلاوطنی میں۳۵ سال مکمل کرنے والے کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور بازآبادکاری کے بارے میں عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی نے جموں و کشمیر پر گزشتہ۱۰ سالوں میں حکومت کی ہے اور ان سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے تھا کہ انہوں نے اس مدت کے دوران کتنے مہاجر کنبوں کی بازآبادکاری کی ہے۔
این سی صدر نے کہا کہ بی جے پی نے بے روزگار نوجوانوں کو۵۰ہزار نوکریاں دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن کوئی ان سے نہیں پوچھے گا کہ انہوں نے گزشتہ ۱۰سالوں میں کتنی نوکریاں فراہم کیں لیکن نیشنل کانفرنس سے پوچھیں گے جو صرف تین ماہ پہلے اقتدار میں آئی تھی اور اس کے پاس نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے سمیت اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے لئے پانچ سال ہیں۔
فاروق عبداللہ نے انتخابات میں بی جے پی کے ذریعہ مرکزی حکومت کے مبینہ غلط استعمال پر میڈیا کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔
’’میں میڈیا کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی رپورٹنگ سے نفرت کو ختم کریں اور محبت پھیلانے کیلئے کام کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نفرت پھیلانا جاری رکھیں گے تو ہم ملک کو نہیں بچا سکتے ہیں‘‘۔انہوں نے ملک میں میڈیا پر زور دیا کہ وہ اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں سے سوال پوچھنے سے پہلے خود جائزہ لیں۔
ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ ہندوستان کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے خطرہ ہے۔ انہوں نے ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے اتحاد اور تفرقہ انگیز بیانیوں کا مقابلہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
اس سے پہلے ڈاکٹر عبداللہ نے یہاں نیشنل کانفرنس ہیڈکوارٹر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ ملک اپنے آپ کو بچانے کیلئے آج بھی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہندوستان کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے خطرہ ہے۔ ملک کے اندر کے لوگ اسے تباہ کر سکتے ہیں، باہر کے لوگ نہیں۔ ملک کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو، اپنے بھائیوں کو اور اپنی بہنوں کو مضبوط بنانا ہوگا‘‘۔
ڈاکٹر عبداللہ نے تقسیم کرنے والے پراپیگنڈے کو تنقید کا نشانہ بنایا، خاص طور پر اس بیانیے پر کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں۸۰ فیصد ہندو ہیں تو خطرہ کہاں ہے؟ اس بیانیے کا مقصد لوگوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔ یہ سب کا فرض ہے کہ وہ اس جھوٹ کو توڑیں۔
تاریخی داستانوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے۱۹۹۶ میں چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنے دور میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) کے لوگوں کی آبادکاری کے بارے میں غلط معلومات کو یاد کیا۔
این سی صدر نے کہا’’یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ وہ آئیں گے اور آپ کی زمینوں پر قبضہ کر لیں گے۔ میں نے بار بار واضح کیا کہ مرکزی وزارت داخلہ کی منظوری کے بغیر کوئی بھی یہاں آباد نہیں ہوسکتا ہے ، پھر بھی کسی نے نہیں سنا‘‘۔
آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ نے دلیل دی کہ یہ خصوصی اہتمام صرف کشمیریوں کیلئے نہیں تھا بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے۱۹۲۷ میں ڈوگروں کو امیر پنجابیوں کے معاشی تسلط سے بچانے کیلئے متعارف کرایا تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’آپ نے منسوخی کا جشن منایا، لیکن اب گھریلو نوکریاں بھی باہر کے لوگوں کے پاس جا رہی ہیں۔ نوکروں کو باہر سے لایا جا رہا ہے۔ سوچیں کہ آپ نے کیا حاصل کیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر فاروق نے آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کے بعد بڑھتے ہوئے معاشی چیلنجوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ’’آپ کی زمینیں لی جا رہی ہیں، اور نوکریاں اب آپ کیلئے مخصوص نہیں ہیں۔ بیرونی لوگ کشمیر میں آنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ اس کی اکثریتی مسلم آبادی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہم نے تمہیں متنبہ کرنے کی کوشش کی‘‘۔
این سی صدر نے غیر محب وطن ہونے کے الزامات کا بھی ذکر کیا۔ ’’میں ایک مسلمان ہوں، اور میں ایک ہندوستانی مسلمان ہوں۔ میں نہ تو چینی ہوں اور نہ ہی پاکستانی مسلمان۔ لیکن یہ پروپیگنڈا جاری ہے۔ یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس کے ہندو ارکان کو بھی کبھی پاکستانی قرار دیا جاتا تھا‘‘۔
فاروق عبداللہ نے عوام کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بے پناہ چیلنجوں کا سامنا کیا لیکن کبھی نہیں جھکے۔ میرے والد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ اگر ہم صحیح راستے پر چلتے ہیں، ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہیں، اور سب کیلئے انصاف کو یقینی بناتے ہیں، تو ہم کسی بھی چیلنج پر قابو پا سکتے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ نے پارٹی قائدین پر زور دیا کہ وہ تقسیم سے گریز کریں اور عوام کیلئے کھلے رہیں اور داخلی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔’’سب سے پہلے اپنے گھر کو ترتیب میں رکھو۔ اگر آپ کا گھر ٹھیک نہیں ہے تو آپ کا ملک کیسے ہو سکتا ہے‘‘؟
ڈاکٹر فاروق نے قوم کی تعمیر کیلئے متحد کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک تبھی ترقی کرسکتا ہے جب ہم سب خوش اور متحد ہوں۔ان کاکہنا تھا’’ ہندوستان متنوع ہے، جس میں مختلف نسلیں اور خطے شامل ہیں، اور ہماری طاقت تنوع کے درمیان ہمارے اتحاد میں ہے‘‘۔
صنفی مساوات پر بات کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے پارلیمنٹ میں خواتین کیلئے ریزرویشن کے نفاذ میں تاخیر پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا ’’مرد اکثر خواتین کے ساتھ اقتدار بانٹنے میں ہچکچاتے ہیں، جو ہمارے ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ہمیں حقیقی معنوں میں آگے بڑھنے کیلئے مردوں اور عورتوں کیلئے مساوات کو یقینی بنانا ہوگا۔‘‘ (ایجنسیاں)