چلئے صاحب امریکہ میں بائیڈن کا دور اقتدارختم ہو ا اور آج ٹرمپ… ڈونالڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کا آغاز … ہم جانتے ہیں کہ مجموعی طور پر امریکہ کی پالیسی فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے ایک جیسی رہتی ہے… اس میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا ہے… امریکہ کے وائٹ ہاؤس کا کو ئی بھی مکین ہو… اسرائیل اس کا لاڈلا ہے … بائیڈن کا بھی یہ لاڈلا تھا اور … اور ٹرمپ کی تو بات ہی نہیں کہ اس کا داما یہودی جو ٹھہرا ۔اس لئے آئندہ چار برسوں میں ہم دیکھیں گے… ایسے فیصلے دیکھیں گے جن کا جھکاؤ سو نہیں بلکہ ایک سو ایک فیصد اسرائیل کی طرف ہو گا اور… اور بے چارے فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل اپنے آباد کاری کے منصوبے کو مزید سرعت کے ساتھ جاری رکھے گا… لیکن صاحب بات … آج ہم بات ٹرمپ کی نہیں بلکہ بائیڈن کی کریں گے اور… اور اس لئے کریں گے کہ غزہ پر تیرا چودہ ماہ تک جاری رہنے والے حملوں میںا س کا کردار مجرمانہ رہا … یکطرفہ رہا … اسرئیل کے حق میں رہا … عام اور معصوم فلسطینیوں کیخلاف رہا… گرچہ ان کے امریکہ کے صدر بننے کے بعد اس سے امید کی جا رہی تھی کہ مشرق وسطیٰ میں یہ ایک منصفانہ پالیسی اپنائے گا… لیکن… لیکن غزہ پر اسرائیلی جنگ میں اس کا جو کردار رہا … وہ سفاکانہ تھا ‘ مجرمانہ تھا…اسرائیلی وزیر اعظم‘ نیتن یاہو نے غزہ میں خون کی جو ہو لی کھیلی ‘ غزہ کی حقیقی معنوں میں اینٹ سے جو اینٹ بجا دی‘ لاکھوں فلسطینیوں کو جو بے گھر کیا ‘ معصوم بچوں ‘ عورتوں اور معمر افراد کا جو قتل عام کیا ‘ فلسطینیوں کی جو نسل کشی کی … اس میں اسے بائیڈن کی مکمل حمایت اور تائید ملتی رہی کہ… کہ دنیا جانتی ہے … یہ جانتی ہے کہ… کہ اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی اور بربادی کی امریکہ کی حمایت سے کی … امریکہ کی مالی اور فوجی معاونت سے کی …دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ اگر بائیڈن چاہتا تو… تو اسرائیل کی لگام کس لیتا… اسے فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکتا … لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا… اس نے کبھی اس کا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا الٹا اسرائیل کے مظالم ‘ اس کی دہشت گردی… سرکاری دہشت گردی کو اس کا دفاع کا حق قرار دیا … اور آج یہی میراث‘ یہی ورثہ لے کر بائیڈن وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو ا… اور یقین کیجئے اس کا جا نشین اس کی اس وراثت ‘اس ورثے کو آگے بڑھائے گا اور… اور سو فیصد بڑھائے گا ۔ ہے نا؟