۱۳؍ جنوری سے آج ۲۱؍ جنوری تک ۹؍روز گذر گئے، وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی سونہ مرگ ٹنل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے چند حصوں پر کشمیر اور جموں کے طول وارض میں پھیلے سیاسی ، سماجی اور عوامی حلقوں میں بحث وتکرار تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ مختلف انداز سے بحث ہو رہی ہے ، دلیلیں پیش کی جارہی ہیں،کوئی خطاب کا دفاع کررہا ہے اور وزیراعلیٰ کے بعد کے وضاحتی بیان کہ’’لڑائی نہیں کرسکتا ‘‘ کے ساتھ اتفاق کررہا ہے تو کوئی خطاب کو چاپلوسی اور معذرت خواہانہ روایتی روش کا ایک اور تسلسل قرار دے رہا ہے۔
بی جے پی کی جموںوکشمیر لیڈر شپ وزیراعلیٰ کی اس تقریر کو اپنے سیاسی فہم کے عینک سے پر کھ اور اپنی تاویلات کے ساتھ اشارے کررہی ہے جبکہ کانگریس کی مقامی لیڈرشپ کا ردعمل اگر چہ فی الوقت تک محتاط ہے لیکن اندر ہی اندر سے وزیراعلیٰ کی جانب سے وزیراعظم کے تئیں خیر مقدمی کلمات کو کچھ اور ہی پہلو سے دیکھ رہی ہے۔ کشمیرمیں اپوزیشن سے بھی وزیراعلیٰ کی تقریر ہضم نہیں ہوپارہی ہے اور اپوزیشن کے موقف سے اتفاق رکھنے والے حلقے عمر کو جس انداز اور لہجہ میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ شدت اختیار کرکے زمین پر کسی ایٹم بم کی مانند پھٹ کر اپنے ارد گرد ایک نئی تباہی کا موجب بن سکتا ہے۔
جموں میں بی جے پی کے کچھ قریبی حلقے وزیراعلی ٰ کی اس تقریر کو جہاں عمر کی سیاسی اور انتظامی مصلحتوں کی مجبوری بھی قرار دے رہے ہیں وہیں وہ اس خیال یا مفروضہ کو بھی زبان دے رہے ہیں کہ غالباً عمر مرکز میں حکمران جماعت کے بہت قریب جانے کی سمت میں پیش قدمی کررہا ہے اور اس پیش قدمی کو آنے والے ایام میں وہ کو ن سا موڈ دینے کا منشا رکھتے ہیں وہ انہی کو معلوم ہے البتہ این ڈی اے میں بحیثیت ایک اکائی کی شرکت خارج از امکان نہیں ۔یہ حلقے اپنے اس مفروضہ کو اس دلیل کے ساتھ نتھی کررہے ہیں کہ غالباً یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی جموںلیڈر شپ کا ایک حصہ وزیراعلیٰ کی تقریر کا خیر مقدم کرتا نظرآرہاہے البتہ ایک دوسرا حلقہ پارٹی کی اندرونی سیاست اور مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ کچھ معاملات کولے کر مخالفت بھی کرتا نظرآرہاہے۔
لیکن جس لہجہ اور انداز کے ساتھ کشمیرمیں ریاستی درجہ کی بحالی کے حوالہ سے وزیراعلیٰ کے خطاب کے انداز پر بحث ہورہی ہے اور وزیراعظم کی طرف سے ریاستی درجہ کی بحالی کا حوالہ دئے بغیر یہ کہنا کہ ’’میں جو وعدہ کرتا ہوں پورا کرتا ہوں ‘‘کو وزیراعظم کے ڈپلومیٹک اندازمیں ’انکار‘ تصور کیاجارہاہے۔ اس مخصوص جواب پر جموں کی سول سوسائٹی خاموش نہیں، وہ جہاں اس مخصوص اشو پر بی جے پی کی جموں لیڈر شپ کی خاموشی اور ’ابھی کوئی جلدی نہیں یا فیصلہ مرکز کو کرنا ہے یا یہ سیاسی اشو ہے یا ریاستی درجہ بحال کرکے عمر کو زیادہ اُچھلنے کا کیوں موقعہ دیا جائے‘ ایسے نعروں کے بار بار کے استعمال اور اظہار کو بی جے پی جموں لیڈر شپ کی جانب سے ریاستی درجہ کی بحالی کی راہ میں دانستہ روڑے اٹکانے کے مترادف قراردیاجارہاہے اور سوال کیا جارہا ہے کہ ریاستی درجہ ختم کرکے جموں وکشمیر کو دوحصوں میںتقسیم کرنے کا فیصلہ کسی کشمیر یا جموں نشین پارٹی کی تحویل سے چھین کرنہیں کیا گیاہے بلکہ یہ لوگوں کی ریاست تھی اور لوگوں سے اس حق کو چین لیاگیا ہے۔ اب جبکہ ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہاہے تو اسی تناظرمیں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی کسی سیاسی پارٹی کیلئے نہیں بلکہ کشمیر اور جموں کے عوام کا یہ حق ہے جس کو وہ اپنے لئے اپنی معاشی ترقی، روزمرہ معاملات کاحل تلاش کرنے، روز گار کے تعلق سے اقدامات اُٹھانے جموں وکشمیر کو قدرت نے جو وسائل عطا کررکھے ہیں ان کا اپنی ترقی اور بہبود اور روزگار کیلئے بہتر ڈھنگ سے بروئے کار لانے اور سب سے بڑھ کر سیلف رول کے تعلق سے اس درجہ کی بحالی اب ناگزیر بن چکی ہے۔
اگر چہ ڈاکٹرفاروق عبداللہ بار بار بلکہ قدم قدم پر یہ بات واضح کررہے ہیں کہ بی جے پی یا این ڈی اے کے ساتھ ان کی پارٹی یا حکومت کی شمولیت کا سوال ہی نہیں ہے لیکن جانکار حلقے فاروق عبداللہ کے بیان کو آدھا سچ تصور کررہے ہیں اور یہ دلیل دے رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ اپنی انتظامی مجبوریوں سے بے بس ہوکر مرکز کے قریب ہوتے جارہے ہیں اور کوئی اغلب نہیںکہ کچھ دیر بعد انہیں این ڈے اے کا حصہ بن جانے کی دعوت دی جائے، مشترکہ حکومت کی تشکیل کی پیش کش کرکے ریاستی درجہ کی بحالی کو ان مخصوص معاملات کے ساتھ مشروط کردیاجائے۔
اس ضمن میںآنے والے دنوں میں بی جے پی کو اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر شپ کی بھی پیشکش کی جاسکتی ہے جس کو آگے کی پیش رفت کے حوالہ سے پہلا زینہ مانا جارہاہے۔ کانگریس کے اندر بھی انہی خدشات اور امکانات کو محسوس کیاجارہاہے۔ انہی امکانات اور خدشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس کی مقامی قیادت بھی مرکز ی ہائی کمان پراین سی کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کیلئے دبائو ڈال رہی ہے ۔
سوشل میڈیا پر بھی اور سول سوسائٹی سے وابستہ کئی ایک حلقوں میںبھی مرکز کے تاخیری رویہ کو دانستہ قرار دیا جارہا ہے وہی اس خدشہ کو بھی زبان دی جارہی ہے کہ یہ تاخیر جموں وکشمیر کیلئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ انتظامی سطح پر معاملات بدستور منقسم ہیںجسے عام فہم اصطلاح میں طاقت ، اختیارات او رفیصلہ سازی کے تعلق سے دو مگر غیر متوازی مراکز کا نام دیاجارہاہے جس کے ہوتے منتخبہ سرکار چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہی ہے۔ تین ماہ گذرنے کے باوجود ابھی تک اختیارات اور فیصلہ سازی کی ضمن میں بزنس رول مرتب نہیںہوسکے ہیں جبکہ یہ بھی واضح نہیں کہ کب تک ؟
جموںوکشمیر کا اوسط شہری اس صورتحال کے ہوتے خود کو عاجز پارہا ہے۔ بھلے ہی وہ سرینگر اور جموں میںواقع انتظامیہ کے ہیڈ کوارٹر کے اندر داخل ہورہے ہیں لیکن یہ داخلہ ان کیلئے کسی کام کا نہیں، ان کا کوئی مسئلہ حل ہورہا ہے اور نہ حقیقی معنوں میں ایڈریس ہورہاہے۔ بس سیکریٹریٹوں کے اندر اور باہر اُن کا آواگون اب ان کیلئے روزانہ کی ایک مشق کی مانندرہ گیا ہے ۔
عوامی اور سیاسی حلقوں میں ہورہی اس بحث وتکرار، اس کے ممکنہ مضمرات عوام پر مرتب ہونے کے ممکنہ منفی اثرات اور خود حکمران پارٹی کی قیادت اور حکومت کے سربراہ عمر عبداللہ کو ان معاملات پر جو کچھ بھی فیڈ بیک پہنچ رہا ہوگا وہ ان کیلئے باعث تشویش ہے، باعث تشویش ہونا چائے اور اس چکر ویو سے باہر آنے کیلئے ان کے پاس کیا کچھ آپشن ہیں وہ ان کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے ۔ عوام نتائج کی توقع رکھتے ہیں ، تقریروں اور بیان بازی کی نہیں۔