اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر اور چیف فنانشل آفیسر نے اپنی قانونی آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثے حاصل کئے :وحید شاہ
سرینگر//
اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے سرینگر سمارٹ سٹی لمیٹڈ (ایس ایس سی ایل) کے دو ملازمین کے خلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کا معاملہ درج کیا ہے۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے سی بی کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل عبدل الوحید شاہ نے کہا کہ چیف فنانشل آفیسر‘ ساجد یوسف بھٹ اور ایس ایس سی ایل کے ایگزیکٹو انجینئر ظہور احمد ڈار‘ دونوں کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
شاہ نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا’’معاملہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ اس سلسلے میں سات مقامات پر تلاشی جاری ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ دونوں اپنی قانونی آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثے حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
مزید عہدیداروں کے ملوث ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر شاہ نے کہا’’ہم نے ایک معاملہ درج کیا ہے اور تلاشی اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی مزید تفصیلات شیئر کی جا سکتی ہیں‘‘۔
اس دوران اے سی بی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے اس الزام کی خفیہ تصدیق کی کہ چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) ساجد یوسف بھٹ اور ایگزیکٹو انجینئر ظہور احمد ڈار، جو اس وقت سرینگر اسمارٹ سٹی لمیٹڈ میں تعینات ہیں، نے اپنی آمدنی کے قانونی ذرائع سے زائد اثاثے جمع کیے ہیں اور مشتبہ افراد بھی پرتعیش اور پرتعیش طرز زندگی گزار رہے ہیں۔
ساجد یوسف بھٹ رام باغ سرینگر میں ایک کمرشل پراپرٹی کے مالک ہیں جس کی اصل قیمت مشتبہ شخص کی جانب سے ادا کی گئی سیل ڈیڈ کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔
اس طرح سرکاری ملازم ساجد یوسف بٹ ولد محمد یوسف بھٹ ساکن نمبلہ بل پانپور‘حال دولت آباد خانیار سرینگر، جو اس وقت سرینگر سمارٹ سٹی لمیٹڈ کے چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) کے طور پر تعینات ہیں، نے بدعنوانی کی روک تھام ایکٹ ۱۹۸۸ کی دفعہ۱۳(۱)(بی) آر/ڈبلیو ۱۳(۲) کے تحت قانونی آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے پر غیر قانونی طور پر خود کو دولت مند بنایا ہے۔
بیان کے مطابق ایف آئی آر نمبر۱/۲۰۲۵پولیس اسٹیشن اے سی بی سرینگر میں درج کی گئی ہے۔
ظہور احمد ڈار لین نمبر ۵ غالب آباد‘شالہ ٹینگ سرینگر میں ایک کثیر المنزلہ مکان کے مالک ہیں۔ان کے پاس ایک گاڑی ہے جبکہ ان کے اور ان کی شریک حیات کے بینک کھاتوں میں مشکوک لین دین ہوا ہے ‘بے نامی جائیدادوں کا حصول اور ایف ڈی آر کی شکل میں بھاری اثاثے بھی ہیں۔
اس طرح سرکاری ملازم ظہور احمد ڈار ولد عبدالرزاق ڈار ساکن ٹاکنواری پورہ سرینگر حال غالب آباد لین نمبر ۵‘جو اس وقت سرینگر اسمارٹ سٹی لمیٹڈ میں ایگزیکٹو انجینئر کے طور پر تعینات ہے، نے بدعنوانی میں ملوث ہو کر غیر قانونی طور پر خود کو مالا مال کر لیا ہے جو بادی النظر میں انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ ۱۳ (۱) (بی) آر/ ڈبلیو ۱۳(۲) کے تحت جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
اس کے مطابق، کیس ایف آئی آر این۰۲۰/۲۰۲۵پولیس اسٹیشن اے سی بی سرینگر میں درج کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ معزز عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کیے گئے ہیں اور ان معاملوں سے جڑے مختلف مقامات پر تلاشی جاری ہے اور تحقیقات جاری ہے۔
اس سے پہلے جموں کشمیر اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے جمعہ کو سرینگر اسمارٹ سٹی پروجیکٹ (ایس ایس سی پی) کے دو عہدیداروں ‘ مالی مشیر اور ایگزیکٹو انجینئر ‘سے جڑے متعدد مقامات پر چھاپے مارے۔
اے سی بی ذرائع نے بتایا کہ سرینگر شہر کے شالٹنگ اور ٹگنواری علاقوں اور ضلع پلوامہ میں چھاپے مارے گئے۔
اسی ذرائع نے بتایا کہ یہ چھاپے عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات کی جاری تحقیقات کا حصہ ہیں جس کے ذریعے ملزم افسران کی آمدنی کے معلوم ذرائع سے زائد اثاثے حاصل کیے گئے تھے۔
اے سی بی ذرائع نے کہا’’جانچ اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا ایس ایس سی پی کے تحت مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے مختص فنڈز کو ذاتی فائدے کے لئے استعمال کیا گیا تھا یا نہیں‘‘۔
واضح رہے کہ سڑکوں، آئی ٹی خدمات، ورثے کے تحفظ، صفائی ستھرائی اور شہری نقل و حرکت کیلئے ایس ایس سی پی کے۱۳۷؍اقدامات کیلئے ۳۰۰۰کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔
یہ منصوبہ اسمارٹ سٹیز منصوبوں کے تحت لائے گئے شہروں میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے قومی اسمارٹ سٹیز مشن کا حصہ تھا۔
تفتیش کار اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ آیا اسمارٹ سٹی اقدام کے تحت مختلف بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا تھا یا اس میں خرد برد کی گئی تھی۔
بھارت کے ملک گیر اسمارٹ سٹیز مشن کے حصے کے طور پر شروع کیے گئے سرینگر اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کا مقصد شہری بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانا، عوامی خدمات کو بہتر بنانا اور رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
ذرائع نے کہا’’ملزم افسروں نے مبینہ طور پر لاگت میں اضافہ، غیر معیاری کاموں کی منظوری وغیرہ کے ذریعے معاہدوں میں ہیرا پھیری کی ہے۔ یہاں تک کہ خریداری کا عمل بھی غیر شفاف معلوم ہوتا ہے‘‘۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایس ایس سی پی کے ذریعے کئے گئے کاموں کو پہلے دن سے ہی عام لوگوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ کام بظاہر جنگی بنیادوں پر کیے گئے تھے، لیکن سڑکوں کی کھدائی اور خریداری کے عمل اور ٹھیکے کی الاٹمنٹ کے بعد، تکمیل کی رفتار اچانک گر گئی اور یہاں تک کہ کئی مقامات پر رک گئی۔ جدیدکاری کے نام پر کھودی جانے والی سڑکیں بند پڑی تھیں اور مہینوں تک قابل استعمال نہیں رہیں۔ (ایجنسیاں)