سرینگر/۲جنوری(ہارون رشید شاہ)
وزیر اعلیٰ ‘عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی پر عدالت سے رجوع کرنا(مرکز سے) لڑائی تصور کی جائےگی ۔انہوں نے عدالت کو آخری آپشن قراردیا ۔
سرینگر میں جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں عمرعبداللہ نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ریاستی درجے کی بحالی کیلئے عدالت کے بجائے مرکزی حکومت سے رجوع کرنے کا دفاع کرتے ہو ئے کہا ”عدالت جانے کا مطلب لڑائی ہو تا ۔اور لڑائی پہلا آپشن نہیں ہو تا ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ اور دوسرے مقامات پر بار بار ریاستی درجے کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا ‘اس لئے میں نے سوچا کہ ان کو پہلا موقع دیا جانا چاہےے ۔عدالت سے رجوع کرنا آخری آپشن ہو گا “۔
وزیر اعلیٰ نے ریاستی درجے کی بحالی کو ان کی حکومت کا سب ست بڑا چیلنج قرار دیا ۔
یہ کہتے ہو ئے کہ مرکز نے گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات میں جموں کشمیر کے لوگوں کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر انہیں مبارکباد دی‘ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اب لوگوں کو اس کا اجر ملنا چاہےے ۔ان کا کہنا تھا ”مرکز نے ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ کیا ہے ۔امید ہے اس میں اب وقت نہیں لگے گا “۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ گزشتہ سال مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو گا ریاستی درجہ بحال کیا جائےگا ”میں امید کرتا ہوں کہ’جتنی جلد ممکن ہو سکے‘ جلد آئے گا “۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی اس یقین دہانی کو بھی ایک سال ہو گیا ”میرے خیال میں ایک سال کافی ہے“۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ الیکشن منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ریاست کا درجہ بحال کرنا ضروری ہے۔” طاقت کے دوہرے نظام کارآمد نہیں ہیں۔ نظام کو موثر طریقے سے چلانے کے لئے اختیارات کو ایک ہی شخص کے پاس ہونا چاہئے“۔
حکمرانی کے ڈھانچے پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے راج بھون اور منتخب حکومت کے رول کو نبھانے کے چیلنجوں کو تسلیم کیا۔”دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اور یہ سمجھنا کہ حکومت کس طرح کام کرتی ہے، ایک نیا تجربہ ہے۔ ہم راج بھون اور منتخب حکومت کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں“۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ لوگوں کو وہاں جانا چاہیے جہاں ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے، چاہے وہ راج بھون ہو یا منتخب حکومت۔ ”میں یہ کہنے والا کوئی نہیں ہوں کہ انہیں راج بھون سے رابطہ نہیں کرنا چاہیے“۔
ایڈوکیٹ جنرل کی تقرری اور شیخ عبداللہ کی سالگرہ کو تعطیل قرار دینے جیسے تنازعات پر وزیر اعلیٰ نے کہا”ان میں سے کچھ مسائل تصوراتی ہیں۔ شیخ عبداللہ کی وراثت بہت وسیع ہے۔ جب بھی کوئی کسان اپنی زمین پر کھیتی کرتا ہے یا کوئی بچہ اسکول جاتا ہے، تو یہ مرحوم لیڈر کی وراثت کا حصہ ہے “۔
سیٹلائٹ کالونیوں کے لئے زمین چھینے جانے کے الزامات پر وزیر اعلیٰ نے عوام کو یقین دلایا کہ ترقیاتی پروجیکٹوں کیلئے غیر پیداواری زمینوں کو ترجیح دی جائیگی۔”میں لوگوں کے خدشات کو سمجھتا ہوں…. یہ وہ زمین ہے جو شیخ محمد عبداللہ نے لوگوں کو دی تھی۔ لیکن ترقی کو روکا نہیں جا سکتا۔ ہم روٹس اور ریلوے جیسے پروجیکٹوں کیلئے غیر پیداواری زمینوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اگر کسی خاص علاقے کے لوگ اعتراض کرتے ہیں تو متبادل مقامات کی تلاش کی جائے گی۔
بھاتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اس دعوے کا جواب دیتے ہوئے کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے مسئلہ کشمیر حل ہوگیا ہے ‘عمر عبداللہ نے کہا”بی جے پی کہتی ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے ، لیکن پی او کے کے بارے میں کیا؟ کیا یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے؟“
بجلی کی قلت کو دور کرنے سے متعلق اقدامات پر وزیر اعلیٰ نے بجلی کے انتظام کو بہتر بنانے کےلئے اپنی حکومت کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا۔ ان کاکہنا تھا ”ہمیں امید ہے کہ گرمیوں میں ہم جو بجلی پیدا کرتے ہیں وہ ہمیں سردیوں میں واپس مل جائے گی۔ ہمارے نقصانات بہت زیادہ ہیں اور ہمیں انہیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کی غیر مقررہ کٹوتی اکثر دیکھ بھال کی وجہ سے ہوتی ہے، اور ہم جتنی جلدی ممکن ہو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں“۔
گزشتہ دو ماہ کی کا کردگی کے بارے میں عمرعبداللہ نے کہا”ہم نے ریاست کی بحالی سے متعلق قرار داد کو منظور کیا ‘ تعلیمی کیلنڈر کو تبدیل کیا ہے، اور عوامی رابطے میں اضافہ کیا ہے۔پم اپنارپورٹ کارڈ اپہلے ایک سو دنوں کے بعد شیئر کریں گے ۔“
عمر عبداللہ نے آزاد اور منصفانہ پریس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے میڈیا کی آزادی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میڈیا دباو اور کشمکش سے پاک ہو۔”آج آپ سے بات چیت بذات خود اس سمت میں ایک قدم ہے۔“