الریاض//
امریکا اور سعودی عرب کی ثالثی کی مساعی کے نتیجے میں سوڈان میں جاری سیاسی بحران ٹلنے لگا ہے۔ سوڈانی فوج اور ’آزادی اور تبدیلی‘ کے نعرے کے تحت سیاسی میدان میں سرگرم قوتیں مل بیٹھنے اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے آگے آ رہی ہیں تاہم ابھی بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو قائل کرنے میں مدد لگے گا۔
’العربیہ‘ کے نامہ نگارنے جمعرات کی شام اطلاع دی کہ سعودی عرب اور امریکی ثالثی سے ایک غیر رسمی میٹنگ جس میں فوجی حکام اور آزادی اور تبدیلی کی فورسز کی مرکزی کونسل کے رہ نماؤں نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں فوج کی طرف سے محمد حمدان دقلو، شمس الدین کباشی اور ابراہیم جابر شامل تھے۔ جب کہ تبدیلی کی قوتوں کی طرف سے واثق البریر، طہ عثمان اور وجدی صالح یاسر عرمان نے شرکت کی۔
نامہ نگار نے بتایا کہ یہ ملاقات خرطوم میں سعودی سفیر کے گھر پر 5 گھنٹے تک جاری رہی۔خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق امۃ پارٹی کے رہ نما نے پہلے اعلان کیا تھا کہ یہ ملاقات ہوگی۔
یہ پیش رفت بدھ کو اقوام متحدہ اور افریقی یونین کے زیر اہتمام فوجی رہ نماؤں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد سامنے آئی، جب کہ رائیٹرز کے مطابق بڑے سویلین گروپوں نے اس ملاقات کا بائیکاٹ کیا۔
فوجی بغاوت کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے بحران کے حل کے لیے اقوام متحدہ اور افریقی سرپرستی میں فوج اور سوڈانی سیاسی جماعتوں کے درمیان کل خرطوم میں شروع ہونے والے براہ راست سیاسی مذاکرات کا پہلا دن تھا مگر کسی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت شریک نہیں ہوئی۔جبکہ سوڈان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے وولکر پرتھیس نے ایک پریس کانفرنس کے دوران زور دیا کہ تمام شرکاء نے تسلیم کیا کہ غیر حاضر سیاسی قوتوں کے حقیقی مفادات سول جمہوری منتقلی میں ہیں اور ان کی موجودگی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سہ فریقی کوششوں سے سوڈان کی دیگر سیاسی قوتوں کو بھی فوج کےساتھ مذاکرات میں شامل کیا جائے گا۔