سرینگر/(ویب ڈیسک)
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے مندر اور مسجد کے کئی تنازعات کے دوبارہ ابھرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کو اٹھا کر ’ہندوؤں کے رہنما‘ بن سکتے ہیں۔
’انڈیا… دی وشوگرو‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے بھاگوت نے ایک جامع سماج کی وکالت کی اور کہا کہ دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ملک ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہ سکتا ہے۔
بھارتی سماج کی کثرت پر روشنی ڈالتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ رام کرشن مشن میں کرسمس منایا جاتا ہے اور صرف ہم ہی ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ ہم ہندو ہیں۔
آر ایس ایس سربرا ہ کاکہنا تھا’’ہم طویل عرصے سے ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اگر ہم دنیا کو یہ ہم آہنگی فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا ایک ماڈل بنانا ہوگا۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ نئی جگہوں پر اسی طرح کے مسائل اٹھا کر ہندوؤں کے رہنما بن سکتے ہیں۔ یہ قابل قبول نہیں ہے‘‘۔
بھاگوت نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر اس لئے کی گئی تھی کیونکہ یہ تمام ہندوؤں کے لئے عقیدے کا معاملہ تھا۔
آر ایس ایس سربراہ نے کہا’’ہر روز ایک نیا معاملہ (تنازعہ) اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ جاری نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔
حالیہ دنوں میں مندروں کا پتہ لگانے کیلئے مساجد کے سروے کے کئی مطالبات عدالتوں میں پیش ہوئے ہیں ، حالانکہ بھاگوت نے اپنے لیکچر میں کسی کا نام نہیں لیا۔
ان کاکہنا تھا’’ باہر سے آنے والے کچھ گروہ اپنے ساتھ سختی لے کر آئے تھے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پرانی حکمرانی واپس آئے۔لیکن اب ملک آئین کے مطابق چل رہا ہے۔ اس سیٹ اپ میں لوگ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں، جو حکومت چلاتے ہیں۔ بالادستی کے دن گزر چکے ہیں‘‘۔
بھاگوت نے کہا کہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی حکمرانی میں اس طرح کی سختی تھی ، حالانکہ ان کی اولاد بہادر شاہ ظفر نے ۱۸۵۷ میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کردی تھی۔
آر ایس ایس سربراہ نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر ہندوؤں کو دیا جائے لیکن انگریزوں نے اس کا احساس کیا اور دونوں برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کردی۔ اس کے بعد سے ،’الگاؤ واد‘ (علیحدگی پسندی) کا یہ احساس وجود میں آیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔
بھاگوت نے کہا کہ اگر سبھی خود کو ہندوستانی کے طور پر ظاہر کرتے ہیں تو ’غلبے کی زبان‘کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے۔
آر ایس ایس سربراہ نے کہا’’ کون اقلیت ہے اور کون اکثریت میں؟ یہاں سب برابر ہیں۔ اس قوم کی روایت یہ ہے کہ سب اپنی اپنی عبادت کی پیروی کر سکتے ہیں‘‘۔بھاگوت نے زور دے کر کہا کہ واحد ضرورت ہم آہنگی کے ساتھ رہنا اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کرنا ہے۔