کئی آبی ذخائر کی بالائی سطح منجمند‘موسم سرما کا سرد ترن مرحلہ ’چلہ کلان‘ آج سے شروع
سرینگر//
سرینگر میں رواں موسم کی ایک اور سرد ترین رات درج ہوئی ہے جہاں شبانہ درجہ حرارت منفی۲ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
محکمہ موسمیات کے مطابق وادی میں سردی کی لہر اگلے چند دنوں کے دوران جاری رہنے کا امکان ہے ۔
جنوبی کشمیر کا ضلع شوپیاں وادی کا سرد ترین علاقہ رہا ہے جہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی۰ء۱۰ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے جبکہ ضلع اننت ناگ دوسرے درجے پر رہا ہے جہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی۹ء۹ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
جنوی کشمیر میں ہی واقع سیاحتی مقام سونہ مرگ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۰ء۹ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے جبکہ زوجیلا پر کم سے کم درجہ حرارت منفی۰ء۲۴ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
گرمائی دارلحکومت سری نگر میں رواں موسم کی ایک اور سرد ترین رات ریکارڈ ہوئی ہے جہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی۲ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
سیاحتی مقام گلمرگ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۰ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
ایک اور سیاحتی مقام پہلگام میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۲ء۸ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جہاں گذشتہ شب کا درجہ حرارت منفی۸ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔
شمالی ضلع کپوارہ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۵ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جہاں گذشتہ شب کا درجہ حرارت منفی۲ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔
قاضی گنڈ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۶ء۷ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جہاں گذشتہ شب کا درجہ حرارت منفی۰ء۷ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔
جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور کولگام اضلاع میں کم سے کم درجہ حرارت بالترتیب منفی۵ء۹ڈگری سینٹی گریڈ اور منفی۸ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور بانڈی پورہ اضلاع میں کم سے کم درجہ حرارت بالترتیب منفی۹ء۵ڈگری سینٹی گریڈ اور منفی۳ء۷ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
وسطی کشمیر کے بڈگام اور گاندربل اضلاع میں کم سے کم درجہ حرارت بالترتیب منفی۶ء۷ڈگری سینٹی گریڈ اور منفی۴ء۶ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
لداخ یونین ٹریٹری کے ضلع لیہہ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۸ء۱۱ڈگری سینٹی گریڈ اور ضلع کرگل میں کم سے کم درجہ حرارت منفی۸ء۱۳ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے ۔
ادھر شبانہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے درج ہونے سے وادی کے آبی ذخائر جم گئے ہیں۔
جہاں جھیل ڈل کے اندرونی کنارے منجمد ہوئے ہیں وہیں شہر و دیہات کے گھروں میں نصب نل جم گئے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق وادی میں۲۶دسمبر تک موسم میں کسی بڑے پیمانے کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم سردیوں کا زور جاری رہ سکتا ہے ۔
متعلقہ محکمے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ وادی میں۲۰دسمبر تک موسم مجموعی طور پر خشک رہنے کا امکان ہے ۔انہوں نے کہا کہ بعد ازاں۲۱؍اور۲۲دسمبر کو موسم مجموعی طور پر ابر آلود رہ سکتا ہے اور اس دوران ۲۱دسمبر کی شام سے۲۲دسمبر کی صبح تک پہاڑی علاقوں میں کہیں کہیں ہلکی برف باری متوقع ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وادی میں۲۳سے۲۶دسمبر تک موسم مجموعی طور پر خشک رہنے کا امکان ہے ۔
محکمے نے انی ایڈوائزری میں کہا ہے کہ اہم گزرگاہوں اور اونچی جگہوں کی سڑکوں پر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے درج ہونے اور برفانی حالات کے پیش نظر، سیاحوں/ مسافروں کو انتظامیہ کی طرف سے جاری ٹریفک ایڈوائزری پر عمل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔
دریں اثناوادی کشمیر میں خشک موسم مگر ٹھٹھرتی شبانہ سردیوں کے بیچ ’چلہ کلان‘جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب کوشروع ہو رہا ہے ۔
چلہ کلان۲۱دسمبر سے شروع ہو کر۳۱جنوری کو اختتام پذیر ہوجاتا ہے ۔
موسم سرما کے یہ چالیس روز ٹھٹھرتی سردیوں، بھاری برف باری،درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے درج ہونے سے آبی ذخائر یہاں تک کہ گھروں میں نصب پانی کے نل منجمد ہونے کے باعث وادی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔
چلہ کلان ہر سال اپنے دور اقتدار میں اپنے تمام تر طاقت و زور کا استعمال کرکے لوگوں کو سخت ترین مشکلات سے دو چار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ہے ۔
چلہ کلان اپنے دور میں خاص طور پرشام کے بعد لوگوں کو نہ صرف گھروں میں ہی محدود کرکے رکھ دیتا ہے بلکہ گھروں میں بھی ان ہی خاص کمروں تک محدود کر دیتا ہے جن میں گرمی کا کوئی انتظام ہو جن کمروں میں گرمی کا انتظام نہیں ہوتا ہے ان میں شاید ہی کوئی بیٹھنے کی جرأت کرتا ہے۔
اگرچہ چلہ کلان میں دن کے اوقات میں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں لیکن عمر رسیدہ افراد، مریض اور بچے زیادہ تر گھروں تک ہی محدود رہتے ہیں۔
چلہ کلان کے دوران ہونے والی بھاری برف باری جو بالائی علاقوں میں پانچ سے چھ فٹ تک بھی جمع ہوتی ہے ، سے جہاں بجلی کی ترسیلی لائینیں زمین بوس ہوجاتی ہیں اور وادی میں گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے وہیں تمام رابطہ سڑکیں بھی ٹریفک کیا لوگوں کے پیدل سفر کرنے کے لئے بھی منقطع ہوجاتی ہیں اور پھر تب تک کوئی اپنے ہمسائے کے پاس بھی جانے سے قاصر ہوتا ہے جب تک نہ برف ہٹانے کے لئے رضاکارانہ یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی بند وبست کیا جائے ۔
اس دوران دیہی علاقوں میں مریضوں خاص طور پر حاملہ خواتین کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے ۔
چلہ کلان میں سب سے دو اہم ترین ضروریات زندگی جیسے پانی اور بجلی کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔
گرچہ اہلیان وادی جو چلہ کلان کے تیکھے تیور سے بخوبی آگاہ ہیں‘ ان ایام کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے حتی الوسیع انتظامات کرتے ہیں لیکن وہ بھی کم ہی پڑتے ہیں۔
اہلیان وادی چلہ کلان کے پیش نظر جہاں گھروں میں پہلے ہی خشک سبزیوں، کوئلے ، گیس وغیرہ کا بھر پو بندوبست کرکے رکھتے ہیں وہیں گرم کپڑوں ، بسترے کمبلوں وغیرہ جیسا سامان کا بھی اچھا خاصا اسٹاک رکھتے ہیں۔
یوں تو اہلیان وادی چلہ کلان کی سختیوں سے لڑنے کیلئے صدیوں سے روایتی ’پھیرن‘اور کانگڑی کا ستعمال کرتے ہیں جس کا رواج آج بھی برابر قائم ہے ۔ تاہم موجود دور میں لوگ اس کی کپکپاتی سردیوں سے نبر آزما ہونے کے لئے گرمی کیلئے الیکٹرانک آلات جیسے روم ہیٹروں اور گیس ہیٹروں کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔
ادھر متعلقہ سرکاری محکم بھی چلہ کلان کی قہر سامنیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھر ور انتظامات کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔
تاہم امسال وادی میں جہاں چلہ کلان کی آمد سے ہی قبل ہی ٹھٹھرتی سردیاں پڑ گئی ہیں جس سے پانی ذخائر بالخصوص جھیل ڈل کے بعض حصے منجمد ہونے لگے ہیں بلکہ کئی علاقوں میں گھروں میں نصب نل بھی منجمد ہونے شروع ہوئے ۔
چالیس روزہ چلہ کلان کے اختتام کے بعد بیس روزہ چلہ خورد شروع ہوتا ہے تاہم یہ زیادی سخت نہیں ہوتا ہے اور دن گزرنے کے ساتھ ساتھ سردی کی شدت میں بتدیرج کمی واقعہ ہونے لگتی ہے تاہم اس دور میں بھاری برف باری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔