سرینگر//
سیاسی جماعتوں کی تشویش کے بیچ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ‘عمر عبداللہ نے آج کولگام کے ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی کو یقین دلایا کہ نویں جماعت کی نصابی کتاب سے شیخ نور الدین نورانیؒ کی زندگی سے متعلق باب کو ہٹایا نہیں جائیگا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ معاملہ وزیر تعلیم سکینہ ایتو پہلے ہی اٹھا چکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ’’میں تاریگامی صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ اس باب کو حذف نہیں کیا جائے گا۔ جیسے ہی اس معاملے کو حکومت کی توجہ میں لایا گیا۔سکینہ ایتو صاحبہ نے پہلے ہی اس معاملے کو اٹھا لیا ہے‘‘۔
اس سے پہلے سی پی آئی (ایم) اور پیپلز کانفرنس نے جمعرات کو جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن (بی او ایس ای) کی جانب سے نویں جماعت کی نصابی کتاب سے شیخ نور الدین نورانی ؒکی زندگی سے متعلق باب کو ہٹانے پر تنقید کی جبکہ سابق وزیر سجاد غنی لون نے اسے ’ثقافتی دہشت گردی‘ قرار دیا۔
تاہم حکمراں نیشنل کانفرنس کے ترجمان تنویر صادق نے کہا کہ درسی کتابوں سے صوفی بزرگ سے متعلق باب کو نہیں ہٹایا جائے گا اور ریاستی وزیر تعلیم نے متعلقہ عہدیداروں سے اس معاملے کو درست کرنے کو کہا ہے۔
صادق نے کہا’’شیخ العالم کا باب نصابی کتابوں سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ وزیر تعلیم نے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ پی ڈی ایف ورڑن میں پائے جانے والے مسئلے کو حل کریں اور اسے درست کریں‘‘۔
جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (جے کے پی سی) کے صدر اور ہندواڑہ کے ایم ایل اے سجاد لون نے جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن (بی او ایس ای) کی جانب سے نویں کلاس کی نصابی کتابوں سے حضرت شیخ نور الدین ولیؒ کی زندگی پر مبنی ایک باب کو ہٹانے کی مذمت کی ہے۔
لون نے اسے’خالص ثقافتی دہشت گردی‘اور ’ہماری ثقافت اور اقدار پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شیخ نور الدین ولیؒ کو تمام کشمیری احترام کرتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
پیپلز کانفرنس کے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ دور جو ’تشدد ، لالچ اور نفرت ‘سے بھرا ہواہے ‘ علمدار کشمیر ؒ کی زندگی ’امید کی کرن اور تقلید کیلئے ایک رول ماڈل‘ کے طور پر کام کرتی ہے۔
لون نے کہا’ہمارے عظیم ولی اللہ اور ان کے بزرگانہ طریقے ہمارے دلوں اور ذہنوں میں نقش ہیں۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ شیخ نور الدین ولیؒ کی تعلیمات اور وراثت کشمیر کی ثقافتی اور روحانی شناخت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
اس دوران سی پی آئی کے ایم ایل اے ایم وائی تاریگامی نے اس واقعہ کو انتہائی پریشان کن قرار دیا تھا اور وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ پر زور دیا کہ وہ اس باب کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کریں۔
تاریگامی نے کہا کہ یہ انتہائی پریشان کن بات ہے کہ صوفی بزرگ شیخ العالمؒ کا ایک پورا باب نویں جماعت کی نصابی کتاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔’’ اسمبلی انتخابات سے پہلے کی جانے والی یہ سنسرشپ ایک ایسے معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے جس کی جڑیں صوفی روایات سے جڑی ہوئی ہیں‘‘۔
کولگام کے ممبر اسمبلی نے کہا’’میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مداخلت کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس اہم باب کو بحال کیا جائے، جس سے ہمارے شاندار ثقافتی اور صوفی ورثے کا تحفظ اور احترام ہو۔‘‘
شیخ نور الدین ولیؒ جو نند رشی کے نام سے بھی مشہور ہیں، ایک کشمیری صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ وہ کشمیر میں رشی نظام کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ مسلمانوں میں وہ شیخ العالم (یعنی دنیا کے روحانی رہنما) اور علمدار کشمیر (یعنی کشمیر کے پرچم بردار) کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ جبکہ ہندوؤں میں انہیں نند لال اور سہجانند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے کاموں اور تعلیمات نے بہت سے روحانی اساتذہ اور سنتوں کو متاثر کیا ہے۔
۱۳۷۷ء میں کولگام میں پیدا ہونے والے شیخ نور الدینؒ نے ۳۰ سال کی عمر میں دنیاوی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور مراقبہ کی زندگی اپنا لی ۔ وہ جس غار میں رہتے تھے وہ جنوبی کشمیر کے کولگام کے قصبے کیموہ میں ہے۔ یہ غار تقریبا ۱۰فٹ گہری ہے۔ سری نگر کے ہوائی اڈے کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
شیخ نور الدین ؒ کی تعلیمات اور پیغامات کو نظموں کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے جسے ’شروک‘کہا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں عام طور پر چار سے چھ سطریں ہوتی ہیں اور یہ ان موضوعات کے گرد گھومتی ہیں جو اخلاقی اصولوں کو اجاگر کرتے ہیں اور اکثر امن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات ۱۴۳۸ء میں چرار شریف میں ہوئی۔