نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ہماچل پردیش میں پارلیمانی سکریٹریوں کے طور پر مقرر کردہ ایم ایل ایز کے خلاف نااہلی کی کارروائی شروع کرنے کے ہائی کورٹ کی حالیہ ہدایت پر جمعہ کو اگلی سماعت تک روک لگا دی
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی ڈویژن بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد یہ حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے تاہم کہا کہ اس دوران ایم ایل اے کی سکریٹری کے طور پر تقرری نہیں ہونی چاہئے ، عدالت نے جواب دہندگان کو جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا اور پھر ریاستی حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے مزید دو دن کا وقت دیا۔
سپریم کورٹ کے سامنے ہماچل حکومت کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل اور اے ایم سنگھوی نے بحث کی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ کی حکومتوں کے فیصلوں سے پیدا ہونے والی اسی طرح کی درخواستیں اس عدالت میں زیر التوا ہیں۔
سینئر وکیل منیندر سنگھ نے اس عبوری راحت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے منی پور حکومت کی طرف سے 2022 میں منظور کیے گئے اسی طرح کے قانون کو کالعدم قرار دیا تھا۔
ہماچل پردیش حکومت نے ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی جس میں وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کی قیادت والی حکومت کی طرف سے چھ چیف پارلیمانی سیکرٹریوں (سی پی ایس) کی تقرری کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ریاستی کانگریس حکومت نے 8 جنوری 2023 کو اپنی کابینہ میں توسیع سے پہلے چھ چیف پارلیمانی سکریٹریوں کا تقرر کیا- سنجے اوستھی، آرکی اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ، کلّو سے سندر سنگھ، دون سے رام کمار، روہڑو سے موہن لال برکتا، آشیش بٹل اور پالم پور سے کشوری لال کی تقرری ہوئی۔
ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں چھ پارلیمانی سکریٹریوں کی تقرری کو اختیار دینے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ہائی کورٹ کا حکم "قانون میں غلط” ہے ۔
ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کی مذکورہ ہدایت پر روک لگانے کی بھی درخواست کی ہے ۔
ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے 13 نومبر 2024 کو چیف منسٹر سکھو کی زیرقیادت حکومت کے ذریعہ چھ چیف پارلیمانی سکریٹریز کی تقرری کو کالعدم قرار دیا اور اس قانون کو کالعدم قرار دیا جس کے تحت ان کی تقرری کی گئی تھی۔
تقرریوں کو منسوخ کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ چھ چیف پارلیمانی سیکرٹریوں کی تمام سہولیات اور مراعات فوری طور پر واپس لے لی جائیں۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ افسران عوامی عہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور انہیں دی گئی تمام سہولیات فوری طور پر واپس لے لی جائیں۔