سرینگر///
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے نادی گام علاقے ،جو ضلع صدر مقام سے زیادہ سے زیادہ نو کلو میٹر دوری پر واقع ہے ، میں ماتم کا ماحول ہے اور گائوں کے تمام باشندوں پیر و جوان اور مرد و خواتین کے چہرے مغموم اور آنکھیں آبدیدہ ہیں۔
گائوں کے ایک گھر، جہاں چار روز قبل ہی شادمانی کا ماحول تھا، سے خواتین کی دلخراش آہ و بکاہ سے پورا گائوں ماتم کدہ بن گیا ہے ۔
یہ گھر، جہاں شادی کی خوشیوں کے نشان ابھی موجود ہی ہیں، ڈاکٹر شاہنوار احمد کا ہے جو گذشتہ شام گاندربل کے گگن گیر علاقے میں ملی ٹنٹوں کے حملے میں جاں بحق ہوگئے ۔
پیر کی صبح ہی اس گائوں میں گرد وپیش کے لوگوں کا اژدھام جمع ہوا جن میں جاں بحق ہونے والے ڈاکٹر کے احباب و اقارب بھی شامل تھے بلکہ پورا گائوں ڈاکٹر شاہنواز کے موت کی خبر سننے کے بعد اتوار کی شام سے ہی ان کے گھر پر جمع تھا۔
گائوں کا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہے جو اس غم میں ماتم کناں نہیں ہے ، ہر طرف ماتمی ماحول ہے ، ہر آنکھ نم اور ہر دل میں غم ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ گائوں کے لوگوں کو غم کے اس اندھیرے سے باہر نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ جس کے ساتھ بات کرتے ہیں وہ غمزدہ خاندان کاہی فرد لگتا ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا گائوں اس نقصان کو بر داشت نہیں کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے ۔
جاں بحق ہونے والے ڈاکٹر کے قریبی رشتہ دار اس قدر غم سے نڈھال ہیں کہ وہ بات نہیں کر پا رہے ہیں۔
ایک مقامی بانشدے نے میڈیا کو بتایا’’ڈاکٹر صاحب نے گذشتہ شام پانچ بجے گھر والوں کے ساتھ فون پر بات کی تھی، شام ساڈھے سات بجے ان کو گولی لگنے کی خبر گائوں میں پھیل گئی،یہ خبر پھیلتے ہی پورا علاقہ غم کے سیلاب میں ڈوب گیا‘‘۔انہوں نے کہا’’ڈاکٹر صاحب کوئی عام ڈاکٹر نہیں تھے ، وہ لوگوں کی بے لوث خدمت کرتے تھے ، ایک دیانت دار اور دین دار شخصیت کے مالک تھے ‘‘۔
ڈاکٹر شاہنواز کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بھائی ہیں جن کے وہ واحد کفیل تھے ۔ان کے دونوں بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر بے روزگار ہیں جبکہ ان کے دونوں بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہنواز احمد کی بیٹی کی شادی خانہ آبادی چار روز قبل ہی انجام پذیر ہوئی اور اب کشمیری رسم کے مطابق اس کو ساتوں جس کو کشمیر میں ’ستم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، واپس گھر دعوت پر پیر کو بلانا تھا۔
بلال احمد نامی ایک مقامی نوجوان نے کہا’’آج انہیں واپس گھر آنا تھا اور بیٹی کو لانا تھا لیکن اس کے بجائے آج ایمبولنس میں ان کی میت یہاں پہنچی‘‘۔انہوں نے کہا’’ایسی دوسری شخصیت کا گائوں میں ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں پیدا ہونا اگر ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے ‘‘۔
ڈاکٹر شاہنواز کے والدین کچھ برس پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ان کے والد ایک پولیس افسر تھے ۔ایک مقامی باشندے نے بتایا’’ان کے والد بھی اچھے اور نیک انسان تھے ، ڈاکٹر صاحب کا بھی کسی سے کوئی رنجش نہیں تھی وہ لوگوں کی خدمت کرتے تھے ، انسانی جانوں کو بچاتے تھے ‘‘۔انہوں نے کہا’’اس واقعے کی تحقیقات کی جانی چاہئے ،یہاں غیر مقامی مزدر بھی مارے گئے حکومت کو چاہئے تھا کہ ان کو حفاظت فراہم کرتے شاید ایسا واقع پیش نہیں آتا‘‘۔
ڈاکٹر شاہنواز کی میت جب پیر کو ان کے آبائی گائوں پہنچائی گئی تو وہاں جمع لوگوں کے ہجوم کے نعروں اور خواتین کی آہ و فغاں سے پوا علاقہ گونج اٹھا۔خواتین خواہ وہ ان کی قریبی قربت دار تھیں یا گائوں کی دوسری خواتین سینہ کوبی کر رہی تھیں اور اس غم میں زار و قطا رو رہی تھیں۔
اس دوران ڈاکٹر شاہنواز کو نائد گام بڈگام میں پر نم آنکھوں کے ساتھ سپرد لحد کیا گیا۔مقتوبل کی لاش جوں ہی پیر کی صبح ان کے آبائی گاوں نائد گام بڈگام پہنچائی گئی تو وہاں کہرام مچ گیا۔
نامہ نگار نے بتایا کہ ڈاکٹر شاہنواز کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور بعد ازاں انہیں آہوں اور سسکیوں کے بیچ سپرد خاک کیا گیا۔
مقامی لوگوں نے اس واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرئے بھی کئے اور ملوثین کو جلدازجلد انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔مظاہرین کے مطابق وادی کشمیر میں اب نہتے شہریو ں کا قتل عام بند ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ کام میں مصروف لوگوں کا قتل کرنا سب سے بڑا گناہ ہے اور اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔