نئی دہلی//
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آج فوجی قیادت پر زور دیا کہ وہ پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں، غیر متوقع حالات کے مطابق اپنائیں اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں اسٹریٹجک فائدے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی ے استفادہ کریں ۔
آج یہاں۶۲ویں نیشنل ڈیفنس کالج (این ڈی سی) کورس کے ایم فل کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے سنگھ نے افسروں پر زور دیا کہ وہ حکمت عملی کے مفکر بنیں جو مستقبل کے تنازعات کا سوچ سمجھ کر اندازہ لگا سکیں، عالمی سیاسی حرکیات کو سمجھ سکیں اور قیادت کرنے کے قابل ہوں۔
وزیر دفاع نے کہا’’جنگ، آج روایتی میدان جنگ سے آگے بڑھ گئی ہے اور اب ایک کثیر ڈومین ماحول میں منعقد کی جاتی ہے جہاں سائبر، خلائی اور معلوماتی جنگ روایتی کارروائیوں کی طرح اہم ہے ۔ سائبر حملے ، ڈس انفارمیشن مہم اور معاشی جنگ ایسے ہتھیار بن چکے ہیں جو ایک گولی چلائے بغیر بھی پورے ممالک کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت میں پیچیدہ مسائل کا تجزیہ کرنے اور اختراعی حل نکالنے کی صلاحیت ہونی چاہیے ‘‘۔
سنگھ نے موجودہ دور میں تیز رفتار تکنیکی ترقی کو سب سے اہم قوت قرار دیا جو مستقبل کے لیے تیار فوج کی ترقی کو آگے بڑھاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈرونز اور خود مختار گاڑیوں سے لے کر مصنوعی ذہانت ( اے آئی ) اور کوانٹم کمپیوٹنگ تک جدید جنگ کو تشکیل دینے والی ٹیکنالوجیز حیران کن رفتار سے تیار ہو رہی ہیں۔ ’’ہمارے افسران کو ان ٹیکنالوجیز کو سمجھنا چاہیے اور انہیں استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے ‘‘۔
وزیر دفاع نے محکمہ دفاع کے حکام کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گہرائی سے تجزیہ کریں کہ اے آئی جیسی مخصوص ٹکنالوجی سے کس طرح زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں فوجی کارروائیوں میں انقلاب لانے کی صلاحیت موجود ہے ۔ انہوں نے انسانی مداخلت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اے آئی کے ذریعے لیے گئے فیصلوں کی ابتدائی سطح کے بارے میں غور و فکر کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی کے عمل میں اے آئی پر بڑھتا ہوا انحصار احتساب کے بارے میں خدشات اور غیر ارادی نتائج کے امکان کو بڑھا سکتا ہے ۔
سنگھ نے اس بات پر زور دیا کہ مخالفین کی جانب سے ان آلات اور ٹیکنالوجی کو ہتھیار بنانے کے امکان سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے جنہیں لوگ روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا’’صرف یہ خیال کہ ہمارے مخالفین ان آلات کا استحصال کر رہے ہیں، اس عجلت کی یاد دہانی ہے جس کے ساتھ ہمیں ان خطرات کے لیے تیاری کرنی چاہیے ‘‘۔
این ڈی سی جیسے اداروں کو اپنے نصاب کو نہ صرف اس طرح کے غیر روایتی جنگوں پر کیس اسٹڈیز کو شامل کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے بلکہ اسٹریٹجک اختراعات کو بھی فروغ دینا چاہیے ۔’’متوقع، موافقت اور جواب دینے کی صلاحیت ہمہ وقت تیار ہوتے چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے ہماری تیاری کی وضاحت کرے گی‘‘۔