نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ وہ جموں کشمیر کا ریاستی درجہ مقررہ وقت میں بحال کرنے کی مانگ کرنے والی عرضی پر سماعت کرنے پر غور کرے گا۔
درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن نے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ سے درخواست کی کہ اس عرضی پر فوری سماعت کی ضرورت ہے۔
نارائنن نے کہا’’ریاست کا درجہ دینے کے لیے ایم اے (متفرق درخواست) موجود ہے۔ یہ (پچھلے سال کے فیصلے میں) نوٹ کیا گیا تھا کہ یہ مقررہ وقت میں ہونا چاہئے‘‘۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا’’میں اس سے نمٹوں گا‘‘۔
نئی درخواست جموں و کشمیر کے ایک ماہر تعلیم ظہور احمد بھٹ اور ایک سماجی و سیاسی کارکن خورشید احمد ملک نے دائر کی تھی۔
۱۱ دسمبر ۲۰۲۳کو سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی کو برقرار رکھا تھا، جس نے سابق ریاست جموں و کشمیر کو۲۰۱۹میں خصوصی درجہ دیا تھا اور ستمبر۲۰۲۴ تک وہاں اسمبلی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ ’جلد از جلد‘ بحال کیا جانا چاہئے۔
اس دوران راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ کپل سبل نے جمعرات کو کہا کہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنا ایک ’آئینی غلطی‘ ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اب اس کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ان کا یہ تبصرہ نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ کے جموں و کشمیر کے وزیر اعلی ٰ کے طور پر حلف لینے کے ایک دن بعد آیا ہے، جو ۲۰۱۹ کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں پہلی منتخب حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب جموں کشمیر اپنی پریشان کن تاریخ میں ایک اور صفحہ الٹ دیا‘ ۵۴ سالہ عبداللہ نے پانچ دیگر وزراء کے ساتھ حلف لیا، جن میں سے تین جموں خطے سے اور دو وادی کشمیر سے ہیں۔
سبل نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا’’ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنا ایک آئینی غلطی تھی۔ یہ غلط تھا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر فیصلہ نہیں کیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وقت آگیا ہے۔’’ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کا آئینی حق ہے‘‘۔