چلئے صاحب الیکشن ہو ئے ‘ نتائج بھی آگئے ‘ ہار جیت بھی ہو ئی ‘ حلف برداری بھی ہو ئی ‘یو ٹی کے پہلے وزیر اعلیٰ بھی بن گئے … اس لئے صاحب اب کام پر لگ جاتے ہیں … کہ …کہ لوگوں نے اپنے گورے گورے بانکے چھورے‘عمرعبداللہ کو کام کرنے کیلئے وہاں تک پہنچادیا ہے جہاں پر یہ جناب پہنچ گئے ہیں…یاد کریں‘ عمر صاحب یاد کریں کہ ۴ جون کو ان کی حالت کیا تھی جب انہیں لوک سبھا الیکشن میں شمالی کشمیر سے ایک قیدی نے شکست … شکست فاش سے دو چار کیا تھا …اور محض چار مہینوں میں ہی لوگوں نے انہیں فرش سے عرش پر پہنچا دیا ہے… اس لئے پہنچا دیا تاکہ عمر صاحب کام کریں … صاحب اپنا کام نہیں بلکہ لوگوں کا کام کریں ۔اب عمر صاحب کام کرتے ہیں یہ تو ہمیں معلوم نہیں ہے … اس لئے معلوم نہیں ہے کی کیا پتہ جس عمر کو ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۴ والے عمر سے مختلف ہوں… ان میں بدلاؤ آیا ہو اور… اور اللہ میاں کی قسم بدلاؤ آنا بھی چاہئے کہ … کہ ۲۰۱۴ سے کشمیر میں بہتر کچھ بدل گیا ہے… بہت کچھ کیا پورا کشمیر ہی بدل گیا ہے… ایسے میں اگر عمر صاحب بھی بدل گئے ہوں تو کوئی تعجب نہیں … گرچہ ہمارا جاننا اور ماننا ہے کہ ان میں بدلا ؤ آیا ہو گا … اتنا بدلاؤ کہ عمر صاحب یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ … کہ ان کی طاقت کا sourceنئی دہلی سے اچھے تعلقات نہیں بلکہ جموں کشمیر کے لوگ ‘ ان کا اعتماد اور بھروسہ ہے… وہ کیا ہے کہ ماضی میں عمر صاحب اور دوسرے صاحب نئی دہلی کے قریب رہنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہاں سے کچھ طاقت حاصل کی جا سکے… اور دہلی سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں ان حضرات نے کئی ایسے فیصلے کئے ‘ کئے ایسے اقدامات اٹھائے جو لوگوں… جموں کشمیر کے لوگوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے‘ جو ان کے حق میں نہیں تھے اور… اور بالکل بھی نہیں تھے… عمر صاحب اب کی بار بھی پہلے دن سے واضح کررہے ہیں اور… اور بار بار واضح کررہے ہیں کہ ہم نئی دہلی سے ٹکراؤ کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں… یقینا ہم متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ۔مخاصمت کے بجائے مفاہمت پر ہم بھی یقین رکھتے ہیں… لیکن… لیکن اپنے لوگوں کی بات کرنا ‘ اپنے لوگوں کے حق کیلئے لڑنا ‘ اپنے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز اٹھانا کوئی مخاصمت نہیں ہے… مخاصمت نہیں ہو سکتی ہے… عمر صاحب کی جڑیں کشمیر میں پیوستہ ہیں… ان کی طاقت نئی دہلی نہیں بلکہ کشمیر ہے‘ اتنا یہ جناب یاد رکھیں اور… اور کام پر لگ جائیں ۔ ہے نا؟