نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات صرف اس لئے نہیں درج کیے جانے چاہئیں کہ ان کی تحریروں کو حکومت کی تنقید سمجھا جاتا ہے۔
جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ نے کہا کہ جمہوری ممالک میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے اور آئین کے آرٹیکل۱۹(۱) (اے) کے تحت صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
بنچ صحافی ابھیشیک اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس میں ریاست میں’عام انتظامیہ کی ذات پات کی حرکیات‘ پر مبینہ طور پر ایک خبر شائع کرنے کے لئے اتر پردیش میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
بنچ نے کہا’’صرف اس لئے کہ ایک صحافی کی تحریروں کو حکومت کی تنقید سمجھا جاتا ہے، مصنف کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔
عرضی پر اتر پردیش حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت نے کہا’’اس دوران مضمون کے سلسلے میں درخواست گزار کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جانی چاہیے‘‘۔
عدالت نے معاملے کی سماعت چار ہفتوں کے بعد ملتوی کردی۔
اپادھیائے نے اپنی عرضی میں الزام عائد کیا ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا ریاست کی قانون نافذ کرنے والی مشینری کا غلط استعمال کرنے کی واضح کوشش ہے تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔
وکیل انوپ پرکاش اوستھی کے ذریعے دائر عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے موکل نے ’یادو راج بمقابلہ ٹھاکر راج‘ کے عنوان سے ایک خبر شائع کی تھی، جس کے بعد ۲۰ ستمبر کو لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں ان کا نام شامل کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ بی این ایس کی دفعہ۳۵۳(۲) (عوامی شرارت کیلئے بیان)‘۱۹۷(۱) (سی) (قومی یکجہتی کیلئے نقصان دہ الزامات یا دعوے شائع کرنا)‘۳۵۶(۲)(ہتک عزت کی سزا) اور۳۰۲ (کسی شخص کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے الفاظ وغیرہ بولنا) اور انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ارپورٹ میں کسی جرم کے ارتکاب کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے’’اس عدالت سے رجوع کرنے کی وجہ یوپی پولیس کے آفیشل ایکس ہینڈل کے ذریعے قانونی کارروائی کی دھمکی ہے اور درخواست گزار کو اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ ریاست اتر پردیش یا کہیں اور اس معاملے پر ان کے خلاف کتنی دیگر ایف آئی آر درج ہیں۔‘‘