ادھمپور/جموں//
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر ‘عمر عبداللہ نے جمعہ کو کہا کہ پرامن جموں خطے میں ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے بی جے پی کی مبینہ ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں جس کیلئے اسے جموں و کشمیر کے عوام سے معافی مانگنی چاہئے۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ بی جے پی نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں دہشت گردی کیلئے نیشنل کانفرنس ، کانگریس اور پی ڈی پی کو مورد الزام ٹھہرا کر پاکستان کو کلین چٹ دے دی ہے۔
عمر نے کہا کہ جموں خطے میں عسکریت پسندی کی کیا صورتحال ہے جہاں ہمارے بہادر فوجی جوانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے؟ بی جے پی کو پہلے اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ۲۰۱۴ کے بعد جموں خطے میں عسکریت پسندی کیوں پھیلی، خاص طور پر پچھلے تین سالوں میں جب اس کا گراف اوپر گیا۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں میں ایک بھی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں دہشت گردانہ حملے نہ ہوئے ہوں۔’’ چاہے وہ وادی چناب ہو، پیر پنجال علاقہ ہو، ریاسی ہو، کٹھوعہ ہو، اودھم پور ہو، جموں ہو اور سانبا ہو۔ یہ ان (بی جے پی حکومت) کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے اور پارٹی کو اسے قبول کرنا چاہئے اور لوگوں سے معافی مانگنی چاہئے‘‘۔
اودھم پور ایسٹ اسمبلی حلقہ میں پارٹی امیدوار سنیل ورما کی حمایت میں ایک انتخابی ریلی کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عمر نے وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہا کہ جب بی جے پی رہنما جموں و کشمیر کے اندر بولتے ہیں تو وہ ہمیں مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن جب وہ مرکز کے زیر انتظام علاقے سے باہر ہوتے ہیں تو وہ پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
عمر نے کہا’’وہ (بی جے پی قیادت) ایک آواز میں بات نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم ذمہ دار ہیں تو وہ پاکستان سے بات کیوں نہیں کر رہے؟ آپ جموں و کشمیر کی سرزمین سے ہم پر دہشت گردی کا الزام لگا رہے ہیں اور اس طرح پاکستان کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔ وہ متضاد بیانات دے رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف لہجے اختیار کر رہے ہیں‘‘۔تاہم انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کے اندر اور باہر ایک آواز میں بولتی ہے۔
ان کی پارٹی کے منشور پر بی جے پی کی تنقید کے بارے میں پوچھے جانے پر عمر نے کہا’’آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے منشور کی تعریف کریں گے؟ وہ ہمارے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں اور یہ واضح ہے کہ وہ ہمارے منشور کی مخالفت کریں گے‘‘۔
این سی نائب صدر نے کہا’’میں خوش ہوں اور ان کے رد عمل کیلئے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ہم ایک چھوٹی سی علاقائی پارٹی ہیں جس کا جموں و کشمیر سے باہر کوئی مفاد نہیں ہے لیکن انہوں نے ہمارے منشور کو پورے ملک میں بحث کا موضوع بنایا۔ شاید ہی کسی مرکزی وزیر یا (بی جے پی) چیف منسٹر نے ہمارے منشور کے بارے میں بات نہ کی ہو۔ میں بی جے پی کا شکر گزار ہوں‘‘۔
بی جے پی کی قیادت کی جانب سے ان کا نام لیے جانے پر عمر عبداللہ نے کہا’’اتنے لمبے عرصے تک اقتدار سے باہر رہنے کے باوجود، اگر وزیر اعظم یا وزیر داخلہ اپنی تقاریر میں مجھے یاد کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے کچھ اچھا کیا ہے‘‘۔
نیشنل کانفرنس لیڈر نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی اسمبلی انتخابات کے پہلے دو مرحلوں میں خراب کارکردگی کی وجہ سے پریشان ہے۔
پہلے دو مرحلوں (۱۸؍ اور ۲۵ ستمبر) میں بی جے پی کی طرف سے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی گئی، وہ پریشان ہیں۔ ’’ہماری اندرونی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ نوشہرہ حلقہ (جموں و کشمیر بی جے پی صدر رویندر رینا) سے ان کے امیدوار کے اپنی نشست بچانے کا امکان نہیں ہے۔ انہیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے اور وہ ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ ہمیں نشانہ بنانے کے لیے آزاد ہیں‘‘۔
اس سے قبل نیشنل کانفرنس اور کانگریس کارکنوں کے مشترکہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ بی جے پی کہہ رہی ہے کہ اگر ہم حکومت بناتے ہیں تو دہشت گردی دوبارہ شروع ہوجائے گی۔ ’’ہم نے۲۰۱۴ سے پہلے جموں سے دہشت گردی کا مکمل صفایا کر دیا تھا لیکن اس ڈبل انجن والی حکومت نے اس کی واپسی میں سہولت فراہم کی۔وہ کہہ رہے ہیں کہ زائرین پر حملے کیے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حملے ان کے دور حکومت میں ہوئے تھے ، چاہے وہ امرناتھ یاتریوں پر حملہ (جولائی ۲۰۱۷ میں کشمیر میں) ہو جب بی جے پی اور پی ڈی پی حکومت میں تھے یا شیو کھوری یاتری (جون ۲۰۲۴)‘‘۔
عمرعبداللہ نے عوام سے تفرقہ انگیز پالیسیوں کے خلاف متحد ہونے اور سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کے علاوہ وہ (بی جے پی) کچھ اور نہیں جانتے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ۹۰ سیٹوں میں سے نیشنل کانفرنس کا بی جے پی سے صرف پانچ سیٹوں پر براہ راست مقابلہ ہے لیکن وہ زیادہ تر ہماری پارٹی، ہمارے منشور اور ہماری قیادت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ’’وزیر داخلہ نے کل نتائج کا اعلان کیا جبکہ آخری مرحلے (یکم اکتوبر کو) میں ۴۰ نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔کیا ان کے پاس جادو کی کوئی چھڑی تھی جس کے ذریعے وہ ووٹنگ کے نتائج کو جانتے تھے۔ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے سب کچھ استعمال کر رہے ہیں۔ ‘‘
این سی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ۵؍اگست۲۰۱۹سے پہلے جموں وکشمیر کی زمینوں پر صرف یہاں کی آبادی کا حق تھا، یہاں کی نوکریاں پر صرف یہاں کے مقامی نوجوانوں کا حق تھا، یہاں پہاڑوں، دریاؤں اور دیگر وسائل پر پہلا حق یہاں کے عوام کا تھا لیکن بی جے پی نے ان سارے حقوق سے یہاں کے عوام کو محروم کردیا‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ہائی وے پروجیکٹ ہو، بجلی پروجیکٹ ہو، یا ٹنل پروجیکٹ ہو،ریت نکالنا ہو یا پتھر نکلانا، ٹھیکیدار باہرکا ہوتا ہے ، وہ ملازم بھی باہر سے لاتا ہے اور مزدور بھی باہر سے ہی آتے ہیں اور جموں وکشمیر کے لوگوں کو کچھ نہیں ملتا۔ یہ بی جے پی کی دین ہے ۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے وعدہ کیا ہے کہ جو بھی پروجیکٹ یہاں لگے گا، اُس کے ٹھیکے ، ملازمت اور مزدوری کا پہلا حق مقامی لوگوں کا ہوگا۔انہوں نے کہا’’ بی جے پی نے یہاں سرکاری ملامت کے دروازے صرف باہری لوگوں کیلئے کھلے رہیں ہیں اور ہم نے وعدہ کیا ہے کہ ہم سرکاری ملازمتوں کے دروزے بھی کھولیں گے اور حکومت آنے کی صورت میں ایک لاکھ بھرتیاں عمل میں لائی جائیں گی‘‘۔
سابق وزیرا علیٰ نے کہا کہ بی جے پی نفرت پھیلا کر اور لوگوں کو ڈرا کر ووٹ حاصل کررہے ہیں، لوگوں کو تقسیم کرکے حکومت میں آنا چاہتے ہیں اور ہم لوگوں کو بلالحاظ ملت و مذہب اور رنگ و نسل ایک بہتر مستقبل کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں۔
این سی نائب صدر کے مطابق ہم نہ لوگوں کو ڈراتے ہیں، نہ تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ پرانی حکومت کی غلطیوں کو دہرانا کو دہراتے ہیں۔’’ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم ایک بہتر مستقبل چاہتے ہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور بچیوں کیلئے ایک بہتر کل چھو ڑکر جائیں، تو اُن عناصر کو مسترد کرنا لازمی ہے جو اپنے مفادات کیلئے لوگوں کو صرف اور صرف تقسیم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کو شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے وراثت میں یونیورسٹی سطح تک مفت تعلیم دی تھی لیکن ان بی جے پی والوں نے یہاں کے بچوں کو اس مفت تعلیم سے بھی محروم کردیا۔ ہم وعدہ بند ہیں کہ ہم مفت تعلیم کا نظام پھر سے بحال کریں گے ۔
این سی صدر نے کہا کہ ایک طرف وہ ہیں جو صرف لوگوں میں نفرت پھیلا رہے ہیں اور تقسیم در تقسیم کی پالیسی پر گامزن ہے اور گذشتہ۱۰سال حکومت کرکے یہاں کے عوام کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل دیا ہے جبکہ دوسری جانب ہم ہیں جو لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں، مہنگائی ، بے روزگاری اور تعمیر و ترقی کے فقدان کو سمجھتے ہیں، اور ان سب کا علاج کرکے جموں و کشمیر کو پھر ایک بار خوشحالی کی طرف لانے کیلئے پُرعزم ہیں۔